زندگی میں کامیابی کے اہم راز
شايد ہي کوئي انسان ہو جس سے
کوئي غلطي سرزد نہ ہوتي ہو ۔ اسلامي تعليمات ميں بھي ذکر ہے کہ چودہ
معصومين کے علاوہ تمام انسان ممکن الخطا ہيں اور مختلف شرائط ميں ہو سکتا
ہے کہ وہ مختلف طرح کي غلطيوں کے مرتکب ہو جائيں ۔ بعض غلطيوں کا تعلق
انسان اور خدا کے رابطے سے ہوتا ہے اور بعض کا انسان کا دوسرے انسانوں سے۔
انسان کي کاميابي کا ايک راز يہ ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات سے بہترين
انداز ميں فائدہ اٹھانا جانتا ہو اور ہر طرح کے حالات ميں کوشش کرے کہ اس
وقت اور لمحے کو بہترين انداز ميں استعمال کرے ۔ انسان کو کوشش کرني چاہيے
کہ ہميشہ گناہوں اور خطاوں سے بچا رہے ۔ اگر انسان ہر لمحے خود کو فعال
رکھے اور اس کا دھيان ہميشہ خدا کي طرف ہو تب شيطان کے ليۓ مشکل ہو جاتا ہے
کہ انسان کو بہکاۓ اور يوں انسان گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ کامياب انسانوں
ميں يہ بھي خوبي ہوتي ہے کہ ان سے جب کوئي خطا سرزد ہو جاتي ہے تب وہ اپني
غلطي کا ازالہ کرنے کي پوري کوشش کرتے ہيں اور نقصان کو کم سے کم لے جانے
کي کوشش ميں رہتے ہيں ۔
يہ خوبياں انسان کي مادي اور معنوي کاميابيوں کا وسيلہ بن جاتي ہيں۔ سورہ آل عمران ميں اللہ تعالي فرماتا ہے کہ
«وَ الَّذينَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا
اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَ مَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ
إِلاَّ اللَّهُ وَ لَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا وَ هُمْ يَعْلَمُونَ :
ترجمہ: اور جن سے کبھي نازيبا حرکت سرزد ہو جائے ياوہ اپنے آپ پر ظلم
کر بيٹھيں تو اسي وقت خدا کو ياد کرتے ہيںاور اپنے گناہوں کي معافي چاہتے
ہيں اور اللہ کے سوا گناہوں کابخشنے والا کون ہے اور وہ جان بوجھ کر اپنے
کيے پر اصرار نہيں کرتے ہيں [آل عمران:135]
کامياب انسان غلطي کے بعد ،
اس کے اثرات کو اسي لمحے زائل کرنے کي کوشش کرتے ہيں اور غلطيوں کو جمع
نہيں ہونے ديتے ہيں ۔ انسان کو گمراہ کرنے کي غرض سے شيطان ہميشہ انسان کي
اس خوبي کو چھيننے کي کوشش ميں ہوتا ہے ۔ امام جعفر صادق عليہ السلام
فرماتے ہيں کہ شيطان اس خوبي کو ختم کرنے کي پوري کوشش کرتا ہے ۔ جب آيت
کريمہ "وَ الَّذِينَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً ..." نازل ہوئي تب ابليس مکہ
کے بلند ترين پہاڑ " تور " پر گيا اور بلند آواز ميں اپنے شاگردوں کو آواز
لگائي ۔ اس کے شاگرد وہاں پہنچے اور بلانے کي وجہ پوچھي تو اس نے اس آيت کے
بارے ميں ان کو بتايا اور کہاں کہ تم ميں کون اس کا حريف ہے ، تو ايک
شاگرد کھڑا ہوا اور بولا کہ ميں اس کا حريف ہوں اور اس کے اثر کو زائل
کروں گا۔ ابليس نے اسے کہا کہ تم اس کے حريف نہيں ہو ۔ پھر ايک دوسرا شاگرد
کھڑا ہوا اور يہي بولا ، اس کو بھي ايسا ہي جواب ملا ۔ پھر وسواس جناس
کھڑا ہوا اور بولا کہ ميں اس کا حريف ہوں تب اس سے پوچھا گيا کہ تم کيسے يہ
کام کرو گے ۔ اس سے کہا کہ ميں آدم کي اولاد کو وعدہ دوں گا اور انہيں
گناہوں کا پياسا بنا دوں گا تاکہ وہ گناہ سرزد کريں اور جب وہ گناہ کے
مرتکب ہو جائيں گے تب انہيں ايسي حالت ميں لے جاوںگا کہ وہ توبہ اور
استغفار کرنا بھول جائيں۔ ابليس نے اس سے کہا کہ حقا کہ تم حريف ہو اور
اسے يہ ذمہ داري سونپ دي اور کہا کہ تو قيامت تک يہ کام کرتے رہو ۔[ امالى
صدوق ص 376 ح 5]
انسان سے جب کوئي گناہ سرزد ہو جاتا ہے تب انسان کو
کوشش کرني چاہيۓ کہ وہ توبہ و استغفار کرے تاکہ کردہ گناہوں کي معافي ملے
اور مستقبل ميں نفس پر قابو پانے کي طاقت حاصل ہو ۔
دنيا کي محبت
انسان کو گناہوں پر مجبور کرتي ہے۔ انسان کو چاہيۓ کہ اپنے کانوں ، زبان
اور آنکھوں کي حفاظت کرے اور ان سے کسي بھي طرح کا گناہ سرزد نہ ہونے دے۔
گناہ ہو بھي جاۓ تو اس کي تلافي کرنے ميں دير نہ کرے ۔ انسان جانتا ہے کہ
اس سے پہلے بھي يہاں لوگ بستے رہے ہيں۔ پچھلي قوموں کے اب قصّے ہي باقي رہ
گۓ ہيں۔ جن لوگوں نے اپنے گناہوں کي معافي مانگي اور گناہوں سے بچے رہے وہ
کامياب ہو گۓ اور جو لوگ غفلت ميں رہتے ہوۓ وقت ضائع کرتے رہے ، ان کي
زندگي يونہي گزر گئي اور حتي کہ موت کے فرشتے نے ان کي جان لے لي۔
جو
لوگ اپنے سرکردہ گناہوں سے غافل رہتے ہيں ، ان کي غلطياں اور گناہ دن بدن
زيادہ ہوتے جاتے ہيں ۔ ايک ايسا وقت آ جاتا ہے جب يہ گناہ ايک بڑے بند کي
طرح انسان کي کاميابيوں کے سامنے حائل ہو جاتے ہيں ۔ گناہوں کے اثر کو
زآئل کرنے کا بھي ايک وقت مقرر ہوتا ہے ۔اس فرصت سے بروقت استفادہ کرنا
چاہيے اور جب يہ وقت گزر جاتا ہے تب انسان ہاتھ پر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ [النبأ:40]
ترجمہ : بلکہ يہ (قيامت کا ہولناک عذاب ) ان پر اچانک آئے گا تو انہيں
بدحواس کر دے گا پھر انہيں نہ اسے ہٹا نے کي استطاعت ہو گي اور نہ ہي انہيں
مہلت دي جائے گي۔
خدا تعالي کي ذات تمام انسانوں کو گناہوں سے بچے رہنے اور توبہ کرنے کي توفيق عطا فرما۔ آمين
No comments: