AmazonAffiliate

Hack

GADGETS

Life & style

Games

Sports

TIP Calculator

Tip Calculator

Tip Calculator

» »Unlabelled » امام مھدی (عج) یھودی، عیسائی اور حدیث کی کتب میں


تقریبا ہر مذہب میں ایک آخری زمانی میں آنے والے کا عقیدہ ہے جسکا خدا نے وعدہ کیا ہے، جو آکر دنیاء کو ظلم اور ناانصافی سے پاک کردے گا اور انصاف و عدل سے بھر دے گا۔ یہ ہندوؤں کے ہاں کلکی اوتار (سنسکرت میں कल्कि) ہے، ٹاوازم جو کہ چین میں پایا جاتا ہے اس میں لی ہونگ (چائنیز میں 李弘) ہے، زرتشت یا مجوسیوں کا مذہب جو ایران کا ہے اس میں سوشینت کا ذکر ملتا ہے، یھودیت میں مشیخ (عبرانی میں מָשִׁיח) کا ذکر ہے، عیسائیت میں مسیح (یونانی میں Χριστος) کا ذکر ہے اور بدھ مت میں مائتریا (سنسکر میںमैत्रेय ) کا ذکر ہے۔ ان اشخاص کے متعلق یہ بات مشترک ہے کہ انکا آخری زمانے میں آنے کا ذکر ہے جب دنیاء میں ہر طرف ظلم و ستم ہوگا اور وہ اسکو اس میں سے نکالے گا، اور انکے آنے کی پیشن گوئیاں میں موجود ہیں متعلقہ مذہب میں۔ ہماری تحریر یھودیت، عیسائیت اور اسلام میں اس شخصیت کے متعلق ہے، جو کہ تینوں ابراہیمی مذاہب کہلاتے ہیں۔ ان مذاہب کی مشابہت پر بھی حقیر ایک تحریر لکھ چکا ہے۔ ہم محمد ﷺ اور انکے اہل بیت علیھم السلام کے اہل کتاب کی کتب میں ذکر کے متعلق تحاریر لکھ چکے ہیں، اب ہم امام مھدی (عج) کی بات کریں گے۔
یھودیت
یھودیت میں ایک مشیخ یا عبرانی زبان میں מָשִׁיח کا ذکر ہے۔ یھیودیوں کے 13 اصول دین میں سے ایک یہ ہے، یہ بارہواں اصول ہے، مذکور ہے: : אני מאמין באמונה שלמה בביאת המשיח, ואף על פי שיתמהמה עם כל זה אחכה לו בכל יום שיבוא۔ ترجمہ: "میں پورے ایمان سے عقیدہ رکھتا ہوں مسیح کے آنے پر، حالانکہ وہ تاخیر کر رہا ہے آنے میں، میں ہر روز اسکے آنے کا انتظار کروں گا۔" تلمود، جو کہ یھودیوں کی ایک مقدس کتاب ہے، میں مذکور ہے کہ بہت سے یھودی علماء کی اس موعود شخصیت سے ملاقات بھی ہوتی رہی ہے، جیسے ایک مثال ہے یوشع بن لاوی کی جو نبی الیاس سے ملا اور ان سے پوچھا کہ مسیح کب آئے گا، تو نبی الیاس نے کہا جاکر اس سے خود پوچھ لو، یوشع نے علامت پوچھی تو نبی نے کہا وہ غریبوں اور مساکین کے پاس بیٹھا ہے، تو پھر یوشع بن لاوی مسیح سے جاکر ملے اور گفتگو کی، اور ایسے بہت سے قصے ہیں تلمود میں اور علامات بھی بیان ہوئی ہیں میسح کے آنے کی۔ انکا عقیدہ ہے کہ آخری زمانے میں حضرت داود (ع) کی نسل سے ایک شخص آئے گا جو ساری دنیاء پر حکومت کرے گا۔ اس کو اکثر "بادشاہ مسیح" یا عبرانی میں מלך משיח کہا جاتا ہے۔ انکا عقیدہ ہے کہ مسیح آکر تیسری عبادتگاہ تعمیر کرے گا یروشلم میں۔ پہلی عبادتگاہ کو بابل کے لوگوں نے آکر تباہ کردیا بادشاہ نبخذنصر نے جب حملہ کیا یروشلم پر۔ دوسری مرتبہ جب اسکو تعمیر کیا گیا تو 70 عیسوی میں رومیوں نے آکر تباہ کردیا عبادتگاہ کو۔ اسکے بعد یہ دوبارہ نہ بنی۔ اب جو تیسری مرتبہ یہ بنے گی تو یھودی کتب میں جس جگہ پر بننے کا ذکر ہے ادھر آج مسجد الاقصی کھڑی ہے۔ یھودیوں کی بہت سی مقدس کتب ہیں جیسے تورات، تنخ (جس میں انبیاء کے صحیفے ہیں)، تلمود، مِدراش وغیرہ۔ تلمود میں لکھا ہوا ہے کہ یھودی سال 6000 سے پہلے پہلے مسیح آئے گا، جو کہ عیسوی سال کے مطابق 2230 بنتا ہے۔ اس وقت یھودی سال 5777 ہے، اور ظاہر ہے عیسوی سال 2017 ہے۔ یھودی اپنے سالوں کی گنتی حضرت آدم (ع) کی خلقت سے شروع کرتے ہیں۔ یعنی انکے مطابق آدم (ع) کو 5777 سال پہلے خدا نے خلق کیا تھا۔ اب ہم اس شخصیت جسکا کے متعلق تورات اور تنخ (انبیاء کے صحائف) سے ذکر دیکھیں گے۔ نبی شعیاء کی کتاب باب 2 آیت 4 ہے: "وہ بین الاقوامی جھگڑوں کو نپٹائے گا اور بے شمار قوموں میں انصاف کرے گا۔" یعنی وہ سب اقوام پر حاکم ہوگا اور سب اسکی طرف رجوع کریں گی انصاف کی توقع رکھتے ہوئے۔ نبی شعیا کی کتاب باب 11 آیت 4 ہے: "بلکہ انصاف سے وہ بے بسوں میں عدالت کرے گا اور غیر جانبداری سے دنیاء کے مصیبت زدوں کا فیصلہ کرے گا، اپنے کلام کی لاٹھی سے وہ زمین کو مارے گا اور اپنے منہ کی پھونک سے بے دین کو ہلاک کرے گا۔" یعنی وہ ایک فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہوگا اور دلائل سے حجت تمام کرے گا۔ شعیا باب 11 آیت 9 ہے: "کیونکہ دنیاء خدا کے علم سے ایسے بھر جائے گی جیسے سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے۔" اس ہی کتاب کے باب 25 آیت 8 میں ہے: "الہی فتح کے بعد موت ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی، خداوند ہر ایک کے چہرے سے آنسو پونچھے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی دور کرے گا۔" نبی ارمیاء کی کتاب باب 31 آیت 33 ہے: "رب فرماتا ہے: جو نیا عہد میں اسرائیل کے ساتھ باندھوں گا اسکے تحت میں اپنی شریعت ان کے دلوں میں ڈال دوں گا، تب میں ہی انکا خدا ہوں گا اور وہ میری قوم ہوں گے۔" نبی حزقیل کی کتاب باب 36 آیات 28 تا 29 ہیں: "تب تم دوبارہ اس ملک میں رہو گے جو میں نے تمہارے باپ دادا کو دیا تھا، تم میری قوم ہوگے اور میں تمہارا خدا ہوں گا۔ نیز، میں نجاست کو تم سے دور رکھوں گا۔" یہ عبارت آیت تطہیر سے مشابہ ہے جس میں الله ﷻ نے اہل بیت علیھم السلام کو پاک رکھنے کا کہا ہے، اور ادھر اس شخص سے نجاست دور کرنے کا کہا جا رہا ہے جسکا خدا نے آنے کا وعدہ کیا ہے۔ قرآن اکہتا ہے: ولقد كتبنا في الزبور بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون۔ ترجمہ: "اور ہم نے تورات کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا کہ زمین کے وارث نیک لوگ بنیں گے۔" اور یہ آیت ہمیں آج بھی زبور میں ملتی ہے، زبور باب 37 آیت 29 ہے: "صالح افراد زمین کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔" نبی شعیاء کی کتاب باب 26 آیت 19 ہے: "لیکن تمہارے مردے دوبارہ زندہ ہونگے، انکی لاشیں ایک دن جی اٹھیں گی، اے خاک میں بسنے والوں، جاگ اٹھو اور خوشی مناؤ، کیونکہ تیری اوس نوروں کی شبنم ہے، اور زمین مردوں کو زندگی دے گی۔ " اور ایسا ہی نبی دانیال کی کتاب کے باب 12 میں ہے، پورا باب ہی اس شخصیت کے متعلق ہے جس نے آخر میں آنا ہے خدا کے وعدے کے تحت۔ ان آیات سے رجعت کا پتا چلتا ہے یعنی بعض مردوں کا زندہ ہوکر دوبارہ واپس آنا آخری زمانے میں۔ شعیاء کی کتاب باب 2 آیت 17 ہے: "اس دن صرف رب کی ہی عبادت ہوگی۔" اس ہی کتاب کے باب 11 آیت 2 میں اس شخصیت کی صفات ہیں: "رب کی روح اس پر ٹہری ہوگی، یعنی حکمت اور سمجھ کی روح، اور اسکو خدا کا ڈر ہوگا۔" پھر تورات کی پہلی کتاب، کتاب تکوین کے باب 49 آیت 10 میں ہے: "عصی یھودہ (ایک علاقہ) سے جدا نہیں ہوگا اور نہ ہی شاہی اختیار جدا ہوگا جب تک وہ حاکم نہیں آجاتا جسکی تابعدار ساری اقوام ہونگی۔" نبی دانیال کی کتاب باب 7 میں نبی دانیال کو خواب نظر آتا ہے جس میں آخری زمانے کے حالات ہوتے ہیں، اس کی آیت 13 سے 14 میں نبی دانیال کہتے ہیں: "میں نے اپنے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ آسمان کے بادلوں کے ساتھ ساتھ کوئی آرہا ہے جو ابن آدم جیسا لگ رہا ہے، جب قدیم الایام کے قریب پہنچا تو اس کے حضور لایا گیا۔ اسے سلطنت، عزت اور بادشاہی دی گئی، اور ہر قوم، امت اور زبان کے افراد نے اس کی تابعداری کی، اس کی حکومت ابدی ہے اور کبھی ختم نہیں ہو گی، اس کی بادشاہت کبھی تباہ نہ ہوگی۔" بادل اسکے ساتھ ہونگے، جیسا کہ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام مھدی (عج) کے سر پر بادل کا سایہ ہوگا۔ ادھر ابن آدم کا ذکر ہے، اسکی عبرانی ہے בן אדם، یا ben adám۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ عیسی (ع) اس ابن آدم کے متعلق کیا فرماتے ہیں انجیل میں۔
عیسائیت
عیسائیت میں یہ بات واضح ہے کہ مسیح یا یونانی میں Χριστος (کرسٹوس) عیسی (ع) ہیں، جو کہ مسلمان بھی مانتے ہیں چونکہ قرآن میں بھی انکا یہ لقب ہے۔ عیسائیوں کے مطابق عیسی (ع) کا ذکر یھودی کتب میں ہے کہ آؒخری وقت میں آئیں گے دجال سے لڑنے اور حکومت کرنے۔ کچھ عیسائی دجال سے مراد امام مھدی (ع) بھی لیتے ہیں (نعوذ بالله من ذلك) اپنی کتب کی آیات سے استدلال کرکے، ہماری تحریر کا مقصد کسی کے عقیدے کا رد نہیں لہذا اس پر کلام نہیں کریں گے۔ عیسی (ع) اس ابن آدم کے متعلق بات کرتے ہوئے اور اسکے آنے کی علامات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، متی کی انجیل باب 24 آیات 3 تا 15 میں: "پھر جب عیسی کوہِ‌زیتون پر بیٹھے تھے تو حواری اکیلے میں اُن کے پاس آئے اور کہنے لگے:‏ ”‏ہمیں بتائیں کہ یہ باتیں کب ہوں گی اور آپ کی موجودگی اور دُنیا کے آخری زمانے کی نشانی کیا ہوگی؟‏“‏ عیسی نے جواب دیا:‏ ”‏خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرے کیونکہ بہت سے ایسے لوگ اُٹھیں گے جو میرا نام اِستعمال کر کے کہیں گے:‏ ”‏مَیں مسیح ہوں“‏ اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‏ آپ سنیں گے کہ جگہ جگہ لڑائیاں ہو رہی ہیں مگر اُس وقت پریشان نہ ہوں۔‏ یہ سب باتیں ضرور ہوں گی لیکن تب خاتمہ نہیں ہوگا۔‏ کیونکہ قومیں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گی اور سلطنتیں ایک دوسرے کے خلا‌ف اُٹھیں گی،‏ جگہ جگہ قحط پڑیں گے اور زلزلے آئیں گے۔‏ یہ سب باتیں تکلیفوں کا شروعات ہی ہوں گی۔‏ پھر لوگ آپ کو اذیت پہنچائیں گے اور مار ڈالیں گے اور میرے نام کی خاطر سب قومیں آپ سے نفرت کریں گی۔‏ تب بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے،‏ ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دوسرے سے نفرت کریں گے اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور چونکہ بُرائی بہت بڑھ جائے گی اِس لیے زیادہ ‌تر لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔‏ لیکن جو شخص آخر تک ثابت ‌قدم رہے گا،‏ وہ نجات پائے گا۔‏ اور بادشاہت کی خوش خبری کی مُنادی ساری دُنیا میں کی جائے گی تاکہ سب قوموں کو گواہی ملے۔‏ پھر آخری وقت آئے گا۔‏ ایک دن آئے گا جب تم مقدس مقام میں وہ کچھ کھڑا دیکھو گے جسکا ذکر دانیال نبی نے کیا اور جو بے حرمتی اور تباہی کا باعث ہے۔" ادھر عیسی (ع) بھی دانیال نبی کی کتاب کی اس عبارت کی بات کر رہے ہیں جسکو ہم نے اوپر نقل کیا ہے، کیونکہ وہ بھی واقف تھے اس سے۔ پھر، آیات 23 تا 27 میں مذکور ہے: "تب اگر کوئی آپ سے کہے کہ ”‏دیکھو!‏ مسیح یہاں ہے“‏ یا ”‏دیکھو!‏ مسیح وہاں ہے“‏ تو اُس کا یقین نہ کریں کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بڑے بڑے معجزے اور نشانیاں دِکھا کر چُنے ہوئے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔‏ دیکھیں!‏ مَیں نے آپ کو آگاہ کر دیا ہے۔‏ اِس لیے اگر لوگ آپ سے کہیں کہ ”‏دیکھو!‏ وہ ویرانے میں ہے“‏ تو وہاں نہ جائیں اور اگر وہ کہیں کہ ”‏دیکھو!‏ وہ اپنے کمرے میں ہے“‏ تو اُن کا یقین نہ کریں۔ کیونکہ ابن آدم کی موجودگی بجلی کی طرح ہوگی جو مشرق سے مغرب تک پورے آسمان پر چمکتی ہے۔" پھر آیت 30 اور 31 میں ہے: "پھر ابن آدم کی نشانی آسمان پر دِکھائی دے گی اور زمین کے سب قبیلے غم کے مارے چھاتی پیٹیں گے اور دیکھیں گے کہ ابن آدم آسمان کے بادلوں پر اِختیار اور بڑی شان کے ساتھ آ رہا ہے۔ اور وہ اپنے فرشتوں کو صور کی اونچی آواز کے ساتھ بھیجے گا، اور وہ اسکے چُنے ہوئے بندوں کو جمع کریں گے آسمان کے ایک کونے سے دوسرے تک سے۔" ادھر بھی بادلوں کا "ابن آدم" کے ساتھ ربط بیان کیا جا رہا ہے جیسا کہ نبی دانیال کی کتاب سے ہم بیان کر چکے۔ عیسی (ع) یہ بھی کہتے ہیں کہ فرشتے اسکے ساتھ ہونگے جو نداء دیں گے، اور ہمیں امام مھدی (عج) کے متعلق روایات میں ملتا ہے کہ نداء آئے گی آسمان سے جبرائیل (ع) کی طرف سے جس میں امام (ع) کا نام لیا جائے گا، اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے إن نشا ننزل عليهم من السماء آية فظلت أعناقهم لها خاضعين، ترجمہ: "اور اگر چاہیں تو آسمان سے ایک نشانی نازل فرمائیں جس سے انکی گردنیں جھک جائیں۔"، اور عیسی (ع) کہتے ہیں کہ ابن آدم کے چنے ہوئے بندوں کو جمع کیا جائے گا، جیسے کہ روایات میں ملتا ہے کہ امام مھدی (عج) کے خاص اصحاب کو جمع کردیا جائے گا اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے أين ما تكونوا يأت بكم الله جميعا۔ ترجمہ: "تم جدھر بھی ہوگے الله تم سب کو ایک ساتھ لے آئے گا۔" آیات 37 تا 39: "ابن آدم کی موجودگی نوح کے زمانے کی طرح ہوگی کیونکہ طوفان کے آنے سے پہلے بھی لوگ کھانے پینے اور شادیاں کرنے کروانے میں لگے تھے جب تک کہ نوح کشتی میں نہ گئے۔‏ اور لوگ اُس وقت تک لاپرواہ رہے جب تک طوفان نہیں آیا اور جب طوفان آیا تو وہ سب ڈوب کر مر گئے۔‏ ابن آدم کی موجودگی کے دوران بھی اِسی طرح ہوگا۔" اس "ابن آدم" کو نوح کی کشتی سے تشبیہ دی جا رہی ہے، اس پر محمد ﷺ کی حدیث ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ أهل بيتي فيكم كسفينة نوح عليه السلام في قومه من دخلها نجا ومن تخلف عنها هلك۔ ترجمہ: "میرے اہل بیت کے مثال تمہارے میں نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں داخل ہوا نجات پاگیا، اور جس نے پیٹ پھیر لی ہلاک ہوگیا۔" پھر متی کی انجیل باب 25 آیات 31 تا 32 میں ہے: "جب ابن آدم شان کے ساتھ آئے گا اور سب فرشتے بھی اُس کے ساتھ آئیں گے تو وہ اپنے شاندار تخت پر بیٹھ جائے گا۔‏ تب تمام قوموں کو اُس کے سامنے جمع کِیا جائے گا اور وہ لوگوں کو بالکل اُسی طرح ایک دوسرے سے الگ کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے الگ کرتا ہے۔" لہذا یہ "ابن آدم" جسکی عیسی (ع) بات کر رہے ہیں اور جو نبی دانیال کو خواب میں نظر آیا یہ کوئی اور شخص ہے اور عیسی (ع) خود نہیں کیونکہ وہ خود ہی اسکی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ عیسی (ع) کی واپسی کے متعلق ہمیں ملتا ہے متی کی انجیل باب 7 آیات 22 تا 23 میں جو عیسائیوں کیلئے بھی شاید حیران کن بات ہو، لکھا ہے: "عیسی (ع) نے کہا: اُس دن (میری واپسی کے دن) بہت سے لوگ مجھ سے کہیں گے:‏ ”‏ہمارے رب!‏ ہمارے رب!‏ ہم نے آپ کے نام سے بطور نبی خدمت کی اور آپ کے نام سے شیاطین کو بھگایا اور آپ کے نام سے معجزے کیئے۔‏“‏ لیکن مَیں اُن سے کہوں گا:‏ ”‏بُرے کام کرنے والوں،‏ مَیں تمہیں نہیں جانتا۔‏ مجھ سے دُور ہو جاؤ!‏“‏" لہذا یہ بات واضح ہے کہ عیسی (ع) اپنے بظاہر "ماننے والوں" کو اپنے سے دور کردیں گے، وہ ہندوؤں کو نہیں کہیں گے دور ہوجاو، یھودیوں کو نہیں، مسلمانوں کو نہیں، مگر آیت میں ہے کہ عیسائیوں کو کہیں گے۔ اور یہ اس لیئے کیونکہ وہ عیسی (ع) کو رب کہتے ہیں، عیسی (ع) تو واپس ہی اس لیئے آرہے ہیں کہ عیسائیوں کے عقائد کی تصحیح ہو جو وہ انہوں نے خدا کے نبی کو رب بنا دیا، اور اب یہ تو انکے ساتھ ہوگا جو عیسی (ع) کو رب کہتے ہیں، جو معصومین علیھم السلام کو رب کہتے ہیں انکے ساتھ امام مھدی (عج) کا کیا سلوک ہوگا یہ الله بہتر جانتا ہے۔ اور حدیث سے ہے: " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ وَاللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلاَ يَقْبَلُهُ أَحَدٌ ‏"‏ ‏ترجمہ: "رسول الله ﷺ نے فرمایا : ’’الله ﷻ کی قسم ! یقیناً عیسیٰ بن مریم _عادل حاکم (فیصلہ کرنے والے) بن کر اتریں گے ، ہر صورت میں صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے ، جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی، لوگوں کے دلوں سے عداوت ، باہمی بغض و حسد ختم ہو جائے گا، لوگ مال ( لے جانے) کے لیے بلائے جائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہ کرے گا (مال کی کثرت کے سبب)۔‘‘ [صحيح مسلم، رقم الحديث: 155]۔ یہ بائبل کی بہت سی آیات میں سے چند تھیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
اسلام
ہم فقط ان عقائد کا ذکر کریں گے تو شیعہ و سنی میں مشترکہ ہیں امام مھدی (عج) کے متعلق۔ حدیث ہے: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ كُنَّا عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ فَتَذَاكَرْنَا الْمَهْدِيَّ فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَقُولُ ‏ "‏ الْمَهْدِيُّ مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ ‏"‏ ترجمہ: "‏ام سلمہ (رضی الله عنہا) کہتی ہیں: میں نے الله ﷻ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا کہ مھدی میری نسل اور آل سے ہونگے، فاطمہ کی اولاد میں سے۔" [سنن أبي داود، رقم: 4284، سنن ابن ماجه، رقم: 4086، إسناده صحيح (الأباني)]. صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ثُمَّ سَكَتَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا لاَ يَعُدُّهُ عَدَدًا ‏"‏ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ لأَبِي نَضْرَةَ وَأَبِي الْعَلاَءِ أَتَرَيَانِ أَنَّهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالاَ لاَ۔ ترجمہ: "پھر جابر بن عبد الله ﷻ انصاری رضی الله عنه تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: رسول الله ﷺ نے فرمایا: "میری امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ ہو گا جو لپیں بھر بھر کے مال تقسیم کرے گا اور اس کی گنتی نہیں کرے گا۔" (جریری نے) کہا: میں نے ابو نضرہ اور ابو العلاء سے پوچھا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ عمر بن عبد العزیز ہیں؟ تو دونوں نے کہا: نہیں (وہ امام مھدی ہونگے)۔"[صحيح مسلم، رقم: 2913]۔ اگلی حدیث متفق عليه کا درجہ رکھتی ہے (یعنی صحيح البخاري اور صحيح مسلم دونوں میں ہے)۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ‏"‏‏. ترجمہ: "الله ﷻ کے رسول ﷺ نے کہا: "تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم (ع) تم میں اتر آئیں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔"" [صحيح البخاري، رقم: 3449، صحيح مسلم، رقم: 155]۔ اس حدیث میں واضح ہے کہ مسلمانوں کا امام ان میں موجود ہوگا (امام مھدی) جب عیسی (ع) نازل ہونگے۔ ایک اور حدیث کہتی ہے، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - قَالَ - فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا ‏.‏ فَيَقُولُ لاَ ‏.‏ إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ ‏.‏ تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الأُمَّةَ ‏"‏ ترجمہ: "حضرت جابر بن عبد الله _رضی الله عنه بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’ میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر (قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ، وہ قیامت کے دن تک غالب رہیں گے، کہا: پھر عیسیٰ ابن مریم (ع) _اتریں گے تو اس گروہ کا امیر (امام مھدی) کہے گا: آئیں ہمیں نماز پڑھائیں، اس پر عیسیٰ _(ع) جواب دیں گے : نہیں ، الله ﷻ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔" [صحيح مسلم، رقم: 395] ۔ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عیسی (ع) امام مھدی (عج) کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ ایک اور حدیث کہتی ہے، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله قال يخرج في آخر أمتي المهدى يسقيه الله الغيث وتخرج الأرض نباتها ويعطى المال صحاحا (وتكثر الماشية وتعظم الأمة يعيش سبعا أو ثمانيا يعنى حججا. هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه)۔ ترجمہ: "ابو سعید خدری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ الله ﷻ کے رسول ﷺ نے کہا: "آخری زمانے میں میری امت میں مھدی آئے گا، الله ﷻ اسکو بارش عطاء کرے گا اور زمین پھل اگائے گی، چوپائے بڑھ جائیں گے اور امت عظیم ہوجائے گی، وہ سات (یا آٹھ) سال حکومت کرے گا۔" [المستدرك للحاكم، ج 4، ص 557-558، إسناده صحيح (حاكم، الذهبي، الألباني)]۔ ایک حدیث کہتی ہے، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏ "‏ الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ ‏"‏ ‏ترجمہ: "علی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے کہا کہ مھدی ہم اہل بیت میں سے ہے، الله ﷻ اسکے امر کو ایک رات میں درست کردے گا۔" [مسند أحمد، رقم: 645، سنن ابن ماجه، رقم: 4085، إسناده صحيح (الأباني، أحمد شاكر)]۔ مھدی آخر الزمان کے صفات پر ایک حدیث کہتی ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الْمَهْدِيُّ مِنِّي أَجْلَى الْجَبْهَةِ أَقْنَى الأَنْفِ يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ ‏"‏۔ ترجمہ: "ابو سعید خدری رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” مھدی مجھ سے ( میری نسل سے ) ہو گا اس کی پیشانی فراخ اور ناک بلند ہو گی ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ ظلم و زیادتی سے بھری ہو گی اور سات سال تک حکومت کرے گا ۔" [سنن أبي داود، رقم: 4285، المستدرك للحاكم، ج 4، ص 557، صحيح على شرط الشيخين (الحاكم)]۔ آخری حدیث جو ہم بیان کر رہے ہیں وہ یہ ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ يَوْمٌ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ زَائِدَةُ فِي حَدِيثِهِ ‏"‏ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ اتَّفَقُوا ‏"‏ حَتَّى يَبْعَثَ فِيهِ رَجُلاً مِنِّي ‏"‏ ‏.‏ أَوْ ‏"‏ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي ‏"‏ ‏.‏ زَادَ فِي حَدِيثِ فِطْرٍ ‏"‏ يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا ‏"‏ ‏.‏ وَقَالَ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ ‏"‏ لاَ تَذْهَبُ أَوْ لاَ تَنْقَضِي الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ‏"‏۔ ترجمہ: "عبد الله بن مسعود رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے کہا: "دنیاء ختم نہیں ہوگی حتی کہ عربیوں پر میرے اہل بیت میں سے ایک شخص حاکم بنجائے جسکا نام میرا نام ہوگا، چاہے دنیاء میں ایک دن بھی باقی رہہ جائے الله ﷻ اس دن کو اتنا طویل کردے گا کہ وہ حکومت کر سکے۔" [سنن أبي داود، رقم: 4282، إسناده حسن صحيح (الألباني)]۔ لہذا ہم ان احادیث سے دیکھتے ہیں کہ الله ﷻ کے رسول ﷺ نے پہلے سے امام مھدی (عج) کی پیشن گوئی کردی ہے اور انکی صفات بیان کردی ہیں۔ کہ وہ اہل بیت میں سے ہونگے، فاطمہ (س) کی اولاد میں سے، وہ عربیوں اور مسلمانوں کے حاکم ہونگے اور آخری زمانے میں عیسی (ع) نازل ہونگے اور انکے پیچھے نماز پڑھیں گے، دنیاء کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی اور کہ یہ عیسی (ع) سے مختلف شخصیت ہونگے۔ ہم نے فقط وہ روایات نقل کی ہیں جو مشترک ہیں وگرنہ شیعہ منابع میں امام مھدی (عج) کے متعلق متعدد صحیح اسناد سے روایات مروی ہیں۔
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم عجل لوليك الفرج وسهل مخرجه واجعلنا من أنصاره وأعوانه بحق جده محمد ﷺ وآله الطاهرين.

«
Next
Newer Post
»
Previous
Older Post

No comments:

Leave a Reply