ایک کاغذ کا ٹکڑا
(ایک سچا واقعہ )
ایک ارب پتی بزنس مین تھا جس کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا اس بزنس مین کا صرف ایک ہی اولاد ایک بیتا تھا جو اپنے باپ کے ساتھ بزنس کے سلسلے میں ایران سے باہر ممالک جیسے یورپ وغیرہ جاکرتا تھا
بزنس مین جب بھی اپنے بیٹے سے شادی کے سلسلے میں بات کرتا تھا تو لڑکے کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ
وہ کسی غیرملکی لڑکی سے ہی شادی کرے گا لیکن اس کاوالد ہمیشہ اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے سمجھتا تھا کہ
غیر ملکیوں کے اپنے آداب ورسوم ہیں ،انکا اپنا ایک الگ طرز زندگی ہے ،وہ ایک الگ دین سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ہمار اور ان کا بھی بنے گا نہیں بہتر کہ تم اپنے ہی ملک میں کسی اچھی لڑکی سے شادی کرو
لیکن لڑکے کی سوئی صرف اس بات پر آکر اٹک گئی تھی کہ اس نے صرف کسی غیرملکی یعنی یورپی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے ۔
اس بزنس مین کا ایک دوست جو مشہد مقدس میں ایک فائیوسٹار کا مالک تھا نے ایک دن اسے فون کیا اور کہا کہ ’’آج حرم حضرت امام رضا ؑ کی قبر مطہرسے ڈسٹنگ کی جارہی ہے اور گرد و غبار کی صفائی ہورہی ہے
مجھے اجازت نامہ ملا ہے تاکہ اس دوران حرم میں جاسکوں ،اس بزنس مین نے اپنے دوست سے کہاکہ اسے اور اس کے بیٹے کے لئے بھی اجازت نامہ لے دیں ‘‘
یوں ان باپ بیٹوں کو اجازت نامہ مل جاتا ہے اور دونوں باپ بیٹا اس وقت حرم میں پہنچ جاتے ہیں جب زائرین کا رش کچھ کم ہوجاتا ہے ۔
دونوں اس وقت حرم پہنچتے ہیں جس وقت حرم میں ضریح مطہر کے اندر قبر مطہر سے گردوغبار کی صفائی ہورہی ہوتی ہے
بزنس مین اندر ضریح میں موجود ایک شخص سے کہتا ہے کہ مہربانی کرکے قبر مطہر امام رضاؑ کی ڈسٹنگ والی مٹی سے تھوڑی مٹی مجھے دے دیں
وہاں وموجود شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود کپڑے کا جھاڑ دیا اور کوشش کی اس مٹی کو تبرکا بزنس مین کو دے دے لیکن حرم مطہرکی جالی کے سوراخوں سے اسے پہنچا نا ممکن نہ تھا ۔
اس شخص نے دیکھا کہ حرم کے اندر ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا ،اس نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھایا اور حرم کی مٹی اس میں ڈال کر ٹافی کی طرح اسے بند کرکے جالی کے سوراخو ں سے بزنس مین کو دے دیا ۔
بزنس مین نے حرم مطہر کی مٹی اپنے بیٹے کو دے دی جو کسی غیر ملکی لڑکی سے شادی کرنے پر اصرار کررہا تھا۔
بزنس مین نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اب بھی اسی بات پر اڑا ہوا ہے کہ اس نے کسی یورپی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے
بزنس مین پریشان ہوا کہ حرم مطہر کی اس مٹی نے بھی کوئی اثر نہیں کیا ؟کہنے لگا یا امام رضا ؑ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور یہ باہر جاکر اجنبیوں میں شادی کرنا چاہتا ہے
ادھر بزنس مین کا بیٹا حرم مطہر سے لی گئی مٹی کو اپنی جیب میں ڈال کر گھر کی جانب چل پڑا ۔۔گھر پہنچ کر لڑکے نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے زرا حرم کی مٹی کو دیکھ تو لیں ۔۔
لڑکے نے حرم کی مٹی والا کاغذ کھولا تاکہ مٹی کو دیکھ سکے کہ اس نے دیکھا کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا ہے
لڑکے نے تحریرپڑھنا شروع کردیا
اس پر لکھا تھا ’’یا امام رضا ؑمیں ایک جوان لڑکی ہوں ،میرا باپ میونسپلٹی کا ایک خاک روب یعنی کوڑا اٹھاتا ہے ،میری عمر بڑھتی جارہی ہے ،میرے باپ کی چھوٹی ملازمت کی وجہ سے میرے لئے کوئی رشتہ نہیں آرہا ،ابھی تک میں نے اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھاہے ،لیکن آگے کی کوئی گرانٹی نہیں ہے
یا امام رضا میری اس مشکل کو حل فرمادے ‘‘
یہ لڑکا اس خط کو پڑھتا ہے
اب دیکھیں کہ لڑکی ایک خاک روب کی بیٹی ہے جبکہ یہ ایک ایسے بزنس مین کا بیٹا ہے جو بین الاقوامی سطح کی بزنس ڈیلینگ کرتا ہے اور کئی ملکوں کے ساتھ تجارتی معاملات رکھتا ہے
لڑکا والد سے کہتا ہے کہ وہ اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہے ،والد نے پوچھا کہ کیا تم اس سے شادی کروگے ؟
لڑکے نے جواب دیا کہ ہاں میں شادی کرونگا ،والد نے کہا کہ تم نے اسے دیکھا تک نہیں ہے ،اس پہچانتے نہیں ہو ،اس کا باپ ایک کچرا ٹھاتا ہے وہ ایک معمولی کام کرتا ہے
لڑکے نے جواب دیا آپ نے ان سب چیزوں سے کیا کرنا ‘‘
بزنس کیوں کہ کسی بھی حال میں چاہتا تھا کہ لڑکا بیرون ملک شادی کی ضد کو چھوڑ دے ،فورا راضی ہوجاتا ہے کہتا ہے کہ چلو دیکھ تو لیں ،یہ لڑکی اب بھی ہے یا نہیں ،آخر حقیقت کیا ہے ؟
وہ جا کر اس لڑکی کا ڈیٹا نکال لیتے ہیں ایڈریس کے مطابق چل پڑتے ہیں
بڑی بڑی گاڑیوں میں دونوں سیدھے اس غیریب شخص کے دروازے پراس وقت پہنچ جاتے ہیں جب وہ اپنے کام سے تھک ہار کر آرام کررہا ہوتا ہے۔
سلام و علیک کے بعد اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کی ایک بیٹی ہے ؟
وہ شخص جو بڑی بڑی گاڑیوں والوں کو اپنے غریب خانے دیکھ کر پہلے سے کافی پریشان تھا مزید پریشانی اور حیرت کے ساتھ پوچھتا ہے آپ میری بیٹی کو کیسے جانتے ہیں ؟آپ کو کس نے بھیجا ہے ؟
بزنس مین نے جواب دیا کس نے ہمیں بھیجا ہے یہ آپ کو بعد میں پتہ چل جائے گا
اس شخص کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ شائد یہ ٹی وی والے ہیں کوئی ریکارڈینگ کرنا چاہتے ہیں
پس اس نے پوچھا آپ کہیں ٹی وی کے کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے تو نہیں آئے ؟
بزنس نے کہا نہیں ہم ٹی وی والے نہیں ہیں
اس پر اس شخص نے اپنی بیٹی پر ایک طنزیہ فقرہ کستے ہوا کہا کہ ’’انتظار کرتے کرتے تھک گئے لیکن کوئی تمہارے لئے آیا تک نہیں، پر دیکھو تو سہی اب جب آیا بھی تو اسی نوےلاکھ کی گاڑی والا‘‘
دونوں باپ بیٹا اس شخص کے گھر پر چائے پینے بیٹھ جاتے ہیں کہ اسی دوران لڑکی وہاں سے گذرتی ہے
جوہی بزنس مین کے لڑکے کی نظر لڑکی پر پڑتی ہے تو لڑکا فورا بول اٹھتا ہے ۔۔بس اب میں شادی کرونگا تو صرف اسی لڑکی سے کرونگا ‘‘
باپ کہتا ہے بیٹا یہ لوگ تو انتہائی غریب ہیں ،لڑکا کہتا ہے تو کیا ہوا ہمارے حالات تو اچھے ہیں کیوں ہم ان کے لئے بھی ایک گھر خریدکر دیں ،باپ کہتا ہے شائد لڑکی کا مزاج اچھا نہ ہو ۔۔لڑکا کہتا ہے بس اب آپ ان سب چیزوں کو رہنے دیں مجھے اسی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے
یوں دونوں کی منگنی یعنی نکاح ہوجاتا ہے لیکن لڑکی ہی کہ ابھی اتک بے یقینی کا شکار ہے اسے یہ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا ہے
ایک دن لڑکی لڑکے سے پوچھتی ہے ’’سچ بتائیں کیا حقیقت میں آپ مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتے ہیں کیا آپ مجھے پسند کرتے ہیں ؟
لڑکا کہتا ہے خدا کی قسم میں آپ کو پسند کرتا ہوں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں
لڑکی کہتی تو پھر ۔۔تمہیں خدا کا واسطہ آخر مجھے بتا ہی دیں کہ کس نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا تھا
کون تھا وہ جس نے ہمارے بارے میں تمہیں بتایا تھا ؟
لڑکا جیب میں ہاتھ ڈال کر کہتا ہے ’’یہ اس کاغذ نے ‘‘
کاش کہ ہم جان لیں ہمارے امام ہمیں کس قدر چاہتے ہیں ہم سے کس قدر محبت کرتے ہیں
امام زمانہ ؑ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ماننے والوں کو دن میں سوبار دعا کرتا ہوں ۔
<script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
<!-- Haidergroupad -->
<ins class="adsbygoogle"
style="display:inline-block;width:300px;height:600px"
data-ad-client="ca-pub-2152183499478175"
data-ad-slot="6234827997"></ins>
<script>
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
</script>
(ایک سچا واقعہ )
ایک ارب پتی بزنس مین تھا جس کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا اس بزنس مین کا صرف ایک ہی اولاد ایک بیتا تھا جو اپنے باپ کے ساتھ بزنس کے سلسلے میں ایران سے باہر ممالک جیسے یورپ وغیرہ جاکرتا تھا
بزنس مین جب بھی اپنے بیٹے سے شادی کے سلسلے میں بات کرتا تھا تو لڑکے کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ
وہ کسی غیرملکی لڑکی سے ہی شادی کرے گا لیکن اس کاوالد ہمیشہ اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے سمجھتا تھا کہ
غیر ملکیوں کے اپنے آداب ورسوم ہیں ،انکا اپنا ایک الگ طرز زندگی ہے ،وہ ایک الگ دین سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ہمار اور ان کا بھی بنے گا نہیں بہتر کہ تم اپنے ہی ملک میں کسی اچھی لڑکی سے شادی کرو
لیکن لڑکے کی سوئی صرف اس بات پر آکر اٹک گئی تھی کہ اس نے صرف کسی غیرملکی یعنی یورپی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے ۔
اس بزنس مین کا ایک دوست جو مشہد مقدس میں ایک فائیوسٹار کا مالک تھا نے ایک دن اسے فون کیا اور کہا کہ ’’آج حرم حضرت امام رضا ؑ کی قبر مطہرسے ڈسٹنگ کی جارہی ہے اور گرد و غبار کی صفائی ہورہی ہے
مجھے اجازت نامہ ملا ہے تاکہ اس دوران حرم میں جاسکوں ،اس بزنس مین نے اپنے دوست سے کہاکہ اسے اور اس کے بیٹے کے لئے بھی اجازت نامہ لے دیں ‘‘
یوں ان باپ بیٹوں کو اجازت نامہ مل جاتا ہے اور دونوں باپ بیٹا اس وقت حرم میں پہنچ جاتے ہیں جب زائرین کا رش کچھ کم ہوجاتا ہے ۔
دونوں اس وقت حرم پہنچتے ہیں جس وقت حرم میں ضریح مطہر کے اندر قبر مطہر سے گردوغبار کی صفائی ہورہی ہوتی ہے
بزنس مین اندر ضریح میں موجود ایک شخص سے کہتا ہے کہ مہربانی کرکے قبر مطہر امام رضاؑ کی ڈسٹنگ والی مٹی سے تھوڑی مٹی مجھے دے دیں
وہاں وموجود شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود کپڑے کا جھاڑ دیا اور کوشش کی اس مٹی کو تبرکا بزنس مین کو دے دے لیکن حرم مطہرکی جالی کے سوراخوں سے اسے پہنچا نا ممکن نہ تھا ۔
اس شخص نے دیکھا کہ حرم کے اندر ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا ،اس نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھایا اور حرم کی مٹی اس میں ڈال کر ٹافی کی طرح اسے بند کرکے جالی کے سوراخو ں سے بزنس مین کو دے دیا ۔
بزنس مین نے حرم مطہر کی مٹی اپنے بیٹے کو دے دی جو کسی غیر ملکی لڑکی سے شادی کرنے پر اصرار کررہا تھا۔
بزنس مین نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اب بھی اسی بات پر اڑا ہوا ہے کہ اس نے کسی یورپی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے
بزنس مین پریشان ہوا کہ حرم مطہر کی اس مٹی نے بھی کوئی اثر نہیں کیا ؟کہنے لگا یا امام رضا ؑ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور یہ باہر جاکر اجنبیوں میں شادی کرنا چاہتا ہے
ادھر بزنس مین کا بیٹا حرم مطہر سے لی گئی مٹی کو اپنی جیب میں ڈال کر گھر کی جانب چل پڑا ۔۔گھر پہنچ کر لڑکے نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے زرا حرم کی مٹی کو دیکھ تو لیں ۔۔
لڑکے نے حرم کی مٹی والا کاغذ کھولا تاکہ مٹی کو دیکھ سکے کہ اس نے دیکھا کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا ہے
لڑکے نے تحریرپڑھنا شروع کردیا
اس پر لکھا تھا ’’یا امام رضا ؑمیں ایک جوان لڑکی ہوں ،میرا باپ میونسپلٹی کا ایک خاک روب یعنی کوڑا اٹھاتا ہے ،میری عمر بڑھتی جارہی ہے ،میرے باپ کی چھوٹی ملازمت کی وجہ سے میرے لئے کوئی رشتہ نہیں آرہا ،ابھی تک میں نے اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھاہے ،لیکن آگے کی کوئی گرانٹی نہیں ہے
یا امام رضا میری اس مشکل کو حل فرمادے ‘‘
یہ لڑکا اس خط کو پڑھتا ہے
اب دیکھیں کہ لڑکی ایک خاک روب کی بیٹی ہے جبکہ یہ ایک ایسے بزنس مین کا بیٹا ہے جو بین الاقوامی سطح کی بزنس ڈیلینگ کرتا ہے اور کئی ملکوں کے ساتھ تجارتی معاملات رکھتا ہے
لڑکا والد سے کہتا ہے کہ وہ اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہے ،والد نے پوچھا کہ کیا تم اس سے شادی کروگے ؟
لڑکے نے جواب دیا کہ ہاں میں شادی کرونگا ،والد نے کہا کہ تم نے اسے دیکھا تک نہیں ہے ،اس پہچانتے نہیں ہو ،اس کا باپ ایک کچرا ٹھاتا ہے وہ ایک معمولی کام کرتا ہے
لڑکے نے جواب دیا آپ نے ان سب چیزوں سے کیا کرنا ‘‘
بزنس کیوں کہ کسی بھی حال میں چاہتا تھا کہ لڑکا بیرون ملک شادی کی ضد کو چھوڑ دے ،فورا راضی ہوجاتا ہے کہتا ہے کہ چلو دیکھ تو لیں ،یہ لڑکی اب بھی ہے یا نہیں ،آخر حقیقت کیا ہے ؟
وہ جا کر اس لڑکی کا ڈیٹا نکال لیتے ہیں ایڈریس کے مطابق چل پڑتے ہیں
بڑی بڑی گاڑیوں میں دونوں سیدھے اس غیریب شخص کے دروازے پراس وقت پہنچ جاتے ہیں جب وہ اپنے کام سے تھک ہار کر آرام کررہا ہوتا ہے۔
سلام و علیک کے بعد اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کی ایک بیٹی ہے ؟
وہ شخص جو بڑی بڑی گاڑیوں والوں کو اپنے غریب خانے دیکھ کر پہلے سے کافی پریشان تھا مزید پریشانی اور حیرت کے ساتھ پوچھتا ہے آپ میری بیٹی کو کیسے جانتے ہیں ؟آپ کو کس نے بھیجا ہے ؟
بزنس مین نے جواب دیا کس نے ہمیں بھیجا ہے یہ آپ کو بعد میں پتہ چل جائے گا
اس شخص کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ شائد یہ ٹی وی والے ہیں کوئی ریکارڈینگ کرنا چاہتے ہیں
پس اس نے پوچھا آپ کہیں ٹی وی کے کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے تو نہیں آئے ؟
بزنس نے کہا نہیں ہم ٹی وی والے نہیں ہیں
اس پر اس شخص نے اپنی بیٹی پر ایک طنزیہ فقرہ کستے ہوا کہا کہ ’’انتظار کرتے کرتے تھک گئے لیکن کوئی تمہارے لئے آیا تک نہیں، پر دیکھو تو سہی اب جب آیا بھی تو اسی نوےلاکھ کی گاڑی والا‘‘
دونوں باپ بیٹا اس شخص کے گھر پر چائے پینے بیٹھ جاتے ہیں کہ اسی دوران لڑکی وہاں سے گذرتی ہے
جوہی بزنس مین کے لڑکے کی نظر لڑکی پر پڑتی ہے تو لڑکا فورا بول اٹھتا ہے ۔۔بس اب میں شادی کرونگا تو صرف اسی لڑکی سے کرونگا ‘‘
باپ کہتا ہے بیٹا یہ لوگ تو انتہائی غریب ہیں ،لڑکا کہتا ہے تو کیا ہوا ہمارے حالات تو اچھے ہیں کیوں ہم ان کے لئے بھی ایک گھر خریدکر دیں ،باپ کہتا ہے شائد لڑکی کا مزاج اچھا نہ ہو ۔۔لڑکا کہتا ہے بس اب آپ ان سب چیزوں کو رہنے دیں مجھے اسی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے
یوں دونوں کی منگنی یعنی نکاح ہوجاتا ہے لیکن لڑکی ہی کہ ابھی اتک بے یقینی کا شکار ہے اسے یہ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا ہے
ایک دن لڑکی لڑکے سے پوچھتی ہے ’’سچ بتائیں کیا حقیقت میں آپ مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتے ہیں کیا آپ مجھے پسند کرتے ہیں ؟
لڑکا کہتا ہے خدا کی قسم میں آپ کو پسند کرتا ہوں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں
لڑکی کہتی تو پھر ۔۔تمہیں خدا کا واسطہ آخر مجھے بتا ہی دیں کہ کس نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا تھا
کون تھا وہ جس نے ہمارے بارے میں تمہیں بتایا تھا ؟
لڑکا جیب میں ہاتھ ڈال کر کہتا ہے ’’یہ اس کاغذ نے ‘‘
کاش کہ ہم جان لیں ہمارے امام ہمیں کس قدر چاہتے ہیں ہم سے کس قدر محبت کرتے ہیں
امام زمانہ ؑ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ماننے والوں کو دن میں سوبار دعا کرتا ہوں ۔
<script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
<!-- Haidergroupad -->
<ins class="adsbygoogle"
style="display:inline-block;width:300px;height:600px"
data-ad-client="ca-pub-2152183499478175"
data-ad-slot="6234827997"></ins>
<script>
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
</script>
No comments: