AmazonAffiliate

excel organizer

Excel Data Organizer

Upload Your Excel File

Organized Data

UK Vehicle Enquiry

Check MY MOT Direct

Check Your MOT

Enter your vehicle registration number below:

Check My Mot

Check Your MOT

Quickly check if your vehicle is taxed and has an MOT.

Check Now

Hack

GADGETS

Life & style

Games

Sports

Name Numerology Calculator

Numerology Calculator

Numerology Calculator

TIP Calculator

Tip Calculator

Tip Calculator

Numerology Calculator

Numerology Calculator

Numerology Calculator

Enter your full name and date of birth:

ایک کاغذ کا ٹکڑا (ایک سچا واقعہ )

ایک کاغذ کا ٹکڑا
(ایک سچا واقعہ )
ایک ارب پتی بزنس مین تھا جس کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا اس بزنس مین کا صرف ایک ہی اولاد ایک بیتا تھا جو اپنے باپ کے ساتھ بزنس کے سلسلے میں ایران سے باہر ممالک جیسے یورپ وغیرہ جاکرتا تھا
بزنس مین جب بھی اپنے بیٹے سے شادی کے سلسلے میں بات کرتا تھا تو لڑکے کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ
 وہ کسی غیرملکی لڑکی سے ہی شادی کرے گا لیکن اس کاوالد ہمیشہ اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے سمجھتا تھا کہ
غیر ملکیوں کے اپنے آداب ورسوم ہیں ،انکا اپنا ایک الگ طرز زندگی ہے ،وہ ایک الگ دین سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ہمار اور ان کا بھی بنے گا نہیں بہتر کہ تم اپنے ہی ملک میں کسی اچھی لڑکی سے شادی کرو
لیکن لڑکے کی سوئی صرف اس بات پر آکر اٹک گئی تھی کہ اس نے صرف کسی غیرملکی یعنی یورپی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے ۔
اس بزنس مین کا ایک دوست جو مشہد مقدس میں ایک فائیوسٹار کا مالک تھا نے ایک دن اسے فون کیا اور کہا کہ ’’آج حرم حضرت امام رضا ؑ کی قبر مطہرسے ڈسٹنگ کی جارہی ہے اور گرد و غبار کی صفائی ہورہی ہے
مجھے اجازت نامہ ملا ہے تاکہ اس دوران حرم میں جاسکوں ،اس بزنس مین نے اپنے دوست سے کہاکہ اسے اور اس کے بیٹے کے لئے بھی اجازت نامہ لے دیں ‘‘
یوں ان باپ بیٹوں کو اجازت نامہ مل جاتا ہے اور دونوں باپ بیٹا اس وقت حرم میں پہنچ جاتے ہیں جب زائرین کا رش کچھ کم ہوجاتا ہے ۔
دونوں اس وقت حرم پہنچتے ہیں جس وقت حرم میں ضریح مطہر کے اندر قبر مطہر سے گردوغبار کی صفائی ہورہی ہوتی ہے
بزنس مین اندر ضریح میں موجود ایک شخص سے کہتا ہے کہ مہربانی کرکے قبر مطہر امام رضاؑ کی ڈسٹنگ والی مٹی سے تھوڑی مٹی مجھے دے دیں
وہاں وموجود شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود کپڑے کا جھاڑ دیا اور کوشش کی اس مٹی کو تبرکا بزنس مین کو دے دے لیکن حرم مطہرکی جالی کے سوراخوں سے اسے پہنچا نا ممکن نہ تھا ۔
اس شخص نے دیکھا کہ حرم کے اندر ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا ،اس نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھایا اور حرم کی مٹی اس میں ڈال کر ٹافی کی طرح اسے بند کرکے جالی کے سوراخو ں سے بزنس مین کو دے دیا ۔
بزنس مین نے حرم مطہر کی مٹی اپنے بیٹے کو دے دی جو کسی غیر ملکی لڑکی سے شادی کرنے پر اصرار کررہا تھا۔
 بزنس مین نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اب بھی اسی بات پر اڑا ہوا ہے کہ اس نے کسی یورپی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے
بزنس مین پریشان ہوا کہ حرم مطہر کی اس مٹی نے بھی کوئی اثر نہیں کیا ؟کہنے لگا یا امام رضا ؑ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور یہ باہر جاکر اجنبیوں میں شادی کرنا چاہتا ہے
ادھر بزنس مین کا بیٹا حرم مطہر سے لی گئی مٹی کو اپنی جیب میں ڈال کر گھر کی جانب چل پڑا ۔۔گھر پہنچ کر لڑکے نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے زرا حرم کی مٹی کو دیکھ تو لیں ۔۔
لڑکے نے حرم کی مٹی والا کاغذ کھولا تاکہ مٹی کو دیکھ سکے کہ اس نے دیکھا کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا ہے
لڑکے نے تحریرپڑھنا شروع کردیا
اس پر لکھا تھا ’’یا امام رضا ؑمیں ایک جوان لڑکی ہوں ،میرا باپ میونسپلٹی کا ایک خاک روب یعنی کوڑا اٹھاتا ہے ،میری عمر بڑھتی جارہی ہے ،میرے باپ کی چھوٹی ملازمت کی وجہ سے میرے لئے کوئی رشتہ نہیں آرہا ،ابھی تک میں نے اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھاہے ،لیکن آگے کی کوئی گرانٹی نہیں ہے
یا امام رضا میری اس مشکل کو حل فرمادے ‘‘
یہ لڑکا اس خط کو پڑھتا ہے
اب دیکھیں کہ لڑکی ایک خاک روب کی بیٹی ہے جبکہ یہ ایک ایسے بزنس مین کا بیٹا ہے جو بین الاقوامی سطح کی بزنس ڈیلینگ کرتا ہے اور کئی ملکوں  کے ساتھ تجارتی معاملات رکھتا ہے
لڑکا والد سے کہتا ہے کہ وہ اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہے ،والد نے پوچھا کہ کیا تم اس سے شادی کروگے ؟
لڑکے نے جواب دیا کہ ہاں میں شادی کرونگا ،والد نے کہا کہ تم نے اسے دیکھا تک نہیں ہے ،اس پہچانتے نہیں ہو ،اس کا باپ ایک کچرا ٹھاتا ہے وہ ایک معمولی کام کرتا ہے
لڑکے نے جواب دیا آپ نے ان سب چیزوں سے کیا کرنا ‘‘
بزنس کیوں کہ کسی بھی حال میں چاہتا تھا کہ لڑکا بیرون ملک شادی کی ضد کو چھوڑ دے ،فورا راضی ہوجاتا ہے کہتا ہے کہ چلو دیکھ تو لیں ،یہ لڑکی اب بھی ہے یا نہیں ،آخر حقیقت کیا ہے ؟
وہ جا کر اس لڑکی کا ڈیٹا نکال لیتے ہیں ایڈریس کے مطابق چل پڑتے ہیں
بڑی بڑی گاڑیوں میں دونوں سیدھے اس غیریب شخص کے دروازے پراس وقت پہنچ جاتے ہیں جب وہ اپنے کام سے تھک ہار کر آرام کررہا ہوتا ہے۔
سلام و علیک کے بعد اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کی ایک بیٹی ہے ؟
وہ شخص جو بڑی بڑی گاڑیوں والوں کو اپنے غریب خانے دیکھ کر پہلے سے کافی پریشان تھا مزید پریشانی اور حیرت کے ساتھ پوچھتا ہے آپ میری بیٹی کو کیسے جانتے ہیں ؟آپ کو کس نے بھیجا ہے ؟
بزنس مین نے جواب دیا کس نے ہمیں بھیجا ہے یہ آپ کو بعد میں پتہ چل جائے گا
اس شخص کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ شائد یہ ٹی وی والے ہیں کوئی ریکارڈینگ کرنا چاہتے ہیں
پس اس نے پوچھا آپ کہیں ٹی وی کے کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے تو نہیں آئے ؟
بزنس نے کہا نہیں ہم ٹی وی والے نہیں ہیں
اس پر اس شخص نے اپنی بیٹی پر ایک طنزیہ فقرہ کستے ہوا کہا کہ ’’انتظار کرتے کرتے تھک گئے لیکن کوئی تمہارے لئے آیا تک نہیں، پر دیکھو تو سہی اب جب آیا بھی تو اسی نوےلاکھ کی گاڑی والا‘‘
دونوں باپ بیٹا اس شخص کے گھر پر چائے پینے بیٹھ جاتے ہیں کہ اسی دوران لڑکی وہاں سے گذرتی ہے
جوہی بزنس مین کے لڑکے کی نظر لڑکی پر پڑتی ہے تو لڑکا فورا بول اٹھتا ہے ۔۔بس اب میں شادی کرونگا تو صرف اسی لڑکی سے کرونگا ‘‘
باپ کہتا ہے بیٹا یہ لوگ تو انتہائی غریب ہیں ،لڑکا کہتا ہے تو کیا ہوا ہمارے حالات تو اچھے ہیں کیوں ہم ان کے لئے بھی ایک گھر خریدکر دیں ،باپ کہتا ہے شائد لڑکی کا مزاج اچھا نہ ہو ۔۔لڑکا کہتا ہے بس اب آپ ان سب چیزوں کو رہنے دیں مجھے اسی لڑکی سے ہی شادی کرنی ہے
یوں دونوں کی منگنی یعنی نکاح ہوجاتا ہے لیکن لڑکی ہی کہ ابھی اتک بے یقینی کا شکار ہے اسے یہ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا ہے
ایک دن لڑکی لڑکے سے پوچھتی ہے ’’سچ بتائیں کیا حقیقت میں آپ مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتے ہیں کیا آپ مجھے پسند کرتے ہیں ؟
لڑکا کہتا ہے خدا کی قسم میں آپ کو پسند کرتا ہوں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں
لڑکی کہتی تو پھر ۔۔تمہیں خدا کا واسطہ آخر مجھے بتا ہی دیں کہ کس نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا تھا
کون تھا وہ جس نے ہمارے بارے میں تمہیں بتایا تھا ؟
لڑکا جیب میں ہاتھ ڈال کر کہتا ہے ’’یہ اس کاغذ نے ‘‘
کاش کہ ہم جان لیں ہمارے امام ہمیں کس قدر چاہتے ہیں ہم سے کس قدر محبت کرتے ہیں
امام زمانہ ؑ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ماننے والوں کو دن میں سوبار دعا کرتا ہوں ۔


<script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
<!-- Haidergroupad -->
<ins class="adsbygoogle"
     style="display:inline-block;width:300px;height:600px"
     data-ad-client="ca-pub-2152183499478175"
     data-ad-slot="6234827997"></ins>
<script>
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
</script>

منافق كى پہچان - ڈانس اور گانے

موضوع : منافق كى پہچان - ڈانس اور گانے

✍ حديث مبارك :
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: اسْتِمَاعُ اللَّهْوِ وَ الْغِنَاءِ يُنْبِتُ النِّفَاقَ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ.

🔻ترجمہ :
امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’ لہو اور گانے ‘‘ كا سُننا منافقت كو اگاتا ہے بالكل ايسے ہى جيسے پانى كھيت كو اگاتا ہے ۔

🔸حوالہ :
وسائل الشيعة ، ج ۱۷، ص ۳۱۶، باب ۱۰۱، حديث : ۱ - ۲۲۶۴۱

📚 لمحہِ غور و فكر :
🔻 مراجع عظام و فقہاء كرام كے مجموعى فتاوى كے مطابق گانے بجانا ، سننا اور اس كے ليے كسى بھى چيز كو حاضر كرنا سب حرام ہے ۔ اس سے بدتر چيز ڈانس و رقص ہے جو مرد پر حرام ہے ، حتى كہ علاقائى رقص بھى احتياط واجب اور بعض كے مطابق واجب طور پر حرام ہيں ۔

🔹 شيطان كے پھندوں ميں سے ايك اہم ترين پھندا خاتون، گانا و رقص و لہويات ہيں ۔ اگر ديكھنا ہو كہ ايك شخص پر شيطان سوار ہو كر اس سے كرتب دكھائے تو ايسے شخص كو گانوں كى محافل ميں رقص و ڈانس كرتے ہوئے ملاحظہ كيا جا سكتا ہے ۔

🔹انسان چاہے جوانى كے نشے ميں مست ہو يا بڑھاپے ميں موت سے غافل ۔۔۔ اس پر مختلف حالات طارى ہوتے رہتے ہيں ۔۔۔ كبھى شيطان انسان پر اسى طرح سوار ہو جاتا ہے جيسے بدكے ہوئے بھينسے پر كوئى سوار۔۔ كہ بھينسا آگے پيچھے ہلتے ہوئے ايسے مناظر پيش كرتا ہے كہ جيسے وہ ديوانہ ہو گيا ہو ۔۔ گانوں كى دھن ميں مست بوڑھا يا جوان جب ڈانس و رقص ميں مشغول ہوتا ہے تو ايسے ہى مجنونوں والا منظر پيش كر رہا ہوتا ہے ۔۔ يہى وجہ ہے كہ لہويات ، گانے و ڈانس انسان كو منافقوں كى فہرست ميں شامل كرنے كا سبب بن جاتے ہيں ۔ ۔

🔹 اس حديث شريف ميں امام صادق عليہ السلام دلوں ميں منافقت كے پيدا ہونے كے مختلف اسباب كو بيان كر رہے ہيں ۔ منافقت كى پيدائش اور نشوونما كا صرف ايك سبب نہيں ہے بلكہ اس كى مختلف وجوہات ہيں جن ميں سے ايك ’’ گانے و ڈانس ‘‘ كى لہوى فسق و فجور سے پُر محافل ہيں ۔

🔹 حديث شريف ميں پانى اور كھيت سے تشبيہ دى ہے كہ ايك فصل اگنے ميں كئى چيزيں سبب قرار پاتى ہيں، مثلا سورج كى روشنى، جڑى بوٹيوں كا صاف ہونا ، پانى كا ملنا ۔۔ ان ميں سب سے اہم سبب ’’ پانى ‘‘ ہے جس كے ذريعے تيزى كے ساتھ نشوونما ہوتى ہے ۔ اسى طرح منافقت كى پيداوار ميں مختلف اسباب ہوتے ہيں جيسے واجبات كو ترك كرنا ، محرمات كو انجام دينا ۔۔ ليكن ان ميں سب سے تيز سبب ’’ گانے اور ڈانس و رقص ‘‘ پر مشتمل لہويات ہيں ۔

🔻سب سے زيادہ خطرے ميں وہ انسان ہے جو اعلانيہ گناہ كرتا ہے اور اس كے آثار سوشل ميڈيا ميں صدقہ جاريہ بن كر پھرتے رہتے ہيں ۔ ايك مرتبہ انسان تنہائى ميں گناہ انجام ديتا ہے ۔ ايسے شخص ميں منافقت كا مرض تو پايا جاتا ہے ليكن وہ مرض زيادہ بڑھا نہيں ہے۔ ايك مرتبہ انسان اعلانيہ طور پر بھرى محفل ميں گدھوں كى آوازوں ميں بِدكے ہوئے بھينسے كا منظر پيش كر رہا ہوتا ہے اور شيطان كے ايك اشاروں پر قدموں كو جنبش دے رہا ہوتا ہے ۔۔۔ يہ اعلانيہ گناہ كرنے والا صرف لہويات كى بناء پر گناہانِ كبيرہ ميں مبتلا نہيں ہو رہا بلكہ فسق و فجور اور ظالمين و منافقين كا عنوان بھى اپنے اوپر چسپا كر رہا ہے ۔ پس بھرى محفلوں ميں منافقت كے مظاہرے كرنا سنگين جرائم ميں سے ہے ۔

🔻 الكافى ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ فرماتے ہيں :
 أَنْهَاكُمْ عَنِ الزَّفْنِ وَ الْمِزْمَارِ وَ عَنِ الْكُوبَاتِ وَ الْكَبَرَاتِ.
ميں تمہيں رقص و ڈانس، لہوى بانسرى اور چھوٹے اور دو منہ والے طبل بجانے سے منع كرتا ہوں ۔

🔸حوالہ :
الكافى، ج ۶، ص ۴۳۲، باب الغناء، حديث ۷۔

🔻ايك اور حديث ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ سے منقول ہے :
ِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص نَهَى عَنِ الضَّرْبِ بِالدَّفِّ وَ الرَّقْصِ وَ عَنِ اللَّعِبِ كُلِّهِ وَ عَنْ حُضُورِهِ وَ عَنِ الِاسْتِمَاعِ إِلَيْه‏۔
بے شك رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ نے ( لہوى طور پر ) دف بجانے اور رقص ڈانس كرنے اور تمام باطل كھيل كود سے منع كيا ہے اور ايسى محافل ميں شركت اور اس كو توجہ سے سننے سے منع كيا ہے ۔

🔸حوالہ :
عوالى اللئالى، ج ۱ ، ص ۲۶۰، الفصل : ۱۰، حديث : ۴۱ ۔

🔻شراب ، گانے ، غناء ، رقص ، ڈانس ۔۔ يہ وہ خطرناك جرائم تھے تو يزيدى محافل ميں برپا ہوتے اور يزيد لعين كے فسق و فجور كو جب بيان كيا تو يہى وہ امور تھے جنہيں ذكر كيا جاتا تھا ۔۔ اگر آج ايك شخص اپنے منہ سے ہزار حسينيت كے نعرے لگائے ليكن اس كا عمل اور اس كا داڑھى سے عارى چہرہ يزيدى كردار ميں ڈھلا ہو تو يہى وہ منافقت ہے جس كى طرف حديث مبارك ميں اشارہ كيا گيا ہے ۔

اللہ سبحانہ ہم سب كو گانے ، رقص ڈانس ، لہوى باطل طور طريقوں سے كنارہ كش ہونے كى توفيق عنايت فرمائے تاكہ منافقت كى جڑ كو اپنے باطن سے اكھاڑ سكيں ۔

🍀 البرّ علمى و فكرى مركز 

ایک خوبصورت بات

ریاض جانے کے لیےایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا۔ لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے میں ائیرپورٹ لیٹ پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی، اور دوڑتے ہوئے کاﺅنٹرپر جا پہنچا۔ کاﺅنٹر پرموجودملازم سے میں نے کہا۔ مجھے ریاض جانا ہے، اس نے کہا ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے، میں نے کہا پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دے گا۔میں نے کہا اللہ تمھارا حساب کردے۔اس نے کہا اس میں میراکیاقصور ہے؟
بہرحال میں ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔حیران تھا کیا کروں۔ ریاض جانے کا پروگرام کینسل کر دوں؟یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاﺅں۔یا ٹیکسی میں چلا جاءوں۔بہرحال ٹیکسی میں جانے والی بات پر اتفاق کیا۔ائیرپورٹ کے باہر ایک پرائیوٹ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے پوچھا ریاض کے لیے کتنا لو گے۔اُس نے کہا 500ریال ، بہرحال 450ریال میں بڑی مشکل سے راضی کیا۔اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کے لیے روانہ ہو گیا۔بیٹھتے ہی میں نے اُس سے کہا کہ گاڑی تیز چلانی ہے،اُسنے کہا فکر مت کرو۔واقعی اس نے خطرناک حدتک گاڑی دوڑانا شروع کر دی۔راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔اُسنے میری جاب اور خاندان کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اور کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا۔ کہ اُن سے بات کرلوں۔ میں نے موبائل نکالا۔ اور والدہ کو فون کیا۔ اُنہوں نے پوچھا۔ بیٹے کہاں ہو۔ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتادی۔ ماں نے دُعا دی۔ بیٹے اللہ تمہیں ہر قسم کے شرسے بچادے۔ میں نے کہا۔ ان شاءاللہ جب میں ریاض پہنچ جاﺅ ں گا۔ تو آپکو اطلاع دے دونگا۔
قدرتی طورپر میرے دل پر ایک پریشانی چھا گئی۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔ اُس کے بعد میں نےاپنی بیوی کو فون کیا۔ میں نے اُسے بھی ساری بات بتا دی ، اور اُسے ہدایت کی، کہ بچوں کا خیال رکھے، بالخصوص چھوٹی بچی کا اُ س نے کہا جب سے تم گئے ہو مسلسل آپکے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہامیری بات کرواﺅ۔
بچی نے کہا بابا آپ کب آئیں گے؟ میں نے کہا۔ ابھی تھوڑی دیر میں آجاﺅں گا۔ کوئی چیز چاہیے؟ وہ بولی ہاں میرے لیے چاکلیٹ لے آﺅ۔ میں ہنسا۔ اور کہا ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ کہ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ پوچھا کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں۔ میں نے کہا۔ بھائی تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کونقصان پہنچارہے ہو۔ اُس نے کہا۔ میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ چھوڑ دوں ، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑی قوت کی ہے۔ تم سگریٹ چھوڑنے کا معمولی سا کام نہیں کر سکتے ۔ بہرحال اُسنے کہا آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدمی عطافرمائے (آمین)
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُ س کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے زوردار دھماکہ کی آواز آئی ۔ اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا۔ سپیڈ کم کردو۔ اور گاڑی کو قابو کرو۔ اُس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔گاڑی ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ رُک گئی ۔ مجھے اُس وقت اللہ نے توفیق دی کہ میں نے زورزور سے کلمہ شہادت پڑھا۔
مجھے سر میں چوٹ لگی تھی۔ اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ کہ سر پھٹاجارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ جب کہ میری آنکھیں کھلی تھیں۔ لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُنیں، جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاﺅ نہیں سر سے خون نکل رہا ہے۔ اور ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اور سانس لینے میں شدیددشواری محسوس کررہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا۔ کہ شائد میری موت آگئی ہے۔ اُس وقت مجھے گزری زندگی پر جو ندامت ہوئی ، میں اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ چلا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اس کہانی کے آخر میں بتاﺅں گا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔یہاں پر ہر بھائی بہن تصور کرے کہ جو کچھ ہو رہا ہے میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آنا ہے۔
اس کے بعد لوگوں کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریخی چھاگئی۔ اور میں ایسا محسوس کررہا تھا۔ جیسے میرے جسم کوچھریوں سے کا ٹاجارہا ہو۔ اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔ اُس نے مجھے کہا بیٹے یہ تمھاری زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرنا چاہتاہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہے نصیحت؟
اُ س نے کہا۔ عیسائیت کی ترغیب "قل لبحیا الصلیب" خدا کی قسم اس میں تمھاری نجات ہے۔ اگر تم اس پر ایمان لائے ۔ تو تمہیں اپنے گھروالوں کو لوٹا دوں گا۔ اور تمھاری روح واپس لے آﺅں گا۔ جلدی سے بولو۔ ٹائم ختم ہوا جارہا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا یہ شیطان ہے۔ مجھے اُس وقت جتنی بھی تکلیف تھی۔ اور جتنا بھی اذیت سے دوچارتھا۔ لیکن اُس کے باوجود اللہ اور اُس کے رسول پر پکا ایمان تھا۔ میں نے اُسے کہا جاﺅ اللہ کے دشمن۔ میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ اور مسلمان ہو کر مرﺅں گا۔ اُس کا رنگ زرد پڑگیا۔ بولا تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مر جاﺅ۔ ورنہ میں تمھاری تکلیف بڑھا دوں گا۔ اور تمہاری رُوح قبض کر دوں گا۔ میں نے کہا۔ موت تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جوبھی ہو۔ میں اسلام کی حالت ہی میں مرﺅں گا۔
اتنے میں اُس نے اوپردیکھا۔ اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔ مجھے لگا جیسے کسی نے اُسے ڈرایا ہو۔ اچانک میں عجیب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا ۔ السلام علیکم میں نے کہا وعلیکم السلام۔ اُس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔ اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ اُن کے پاس کفن تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ۔ اُن میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا۔ اور کہا ایتھا النفس المطمئنة اُخرجی الی مغفرۃ من اللہ ورضوان (اے نیک رُوح اللہ کی مغفرت اور اُس کی خوشنودی کی طرف نکل آ)
یہ بات سُن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ میں نے کہا اللہ کے فرشتے میں حاضر ہوں۔
اُس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہورہا تھا۔ جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے جسم سے آسمان کی طرف اُٹھایا جارہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا۔ تو پتہ چلا۔ کہ لوگ میرے جسم کے اردگرد کھڑے ہیں اور انہوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا ۔ اُن میں سے کسی نے کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے دوفرشتوں کو دیکھا۔ کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں۔ اور مجھے کفن میں ڈال کر اوپر کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ تو مجھے افق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے۔ جیسے کہ میں ایک جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظرآرہی تھی۔ میں نے اُن دو فرشتوں سے پوچھا کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ انہوں نے کہا اس کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمہاری رُوح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اور ہم صرف مسلمانوں پر مامُور ہیں۔ ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزرگئے جن کے پاس ایک رُوح تھی۔ اور اُس سے ایسی خوشبو آرہی تھی۔ کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگی تھی۔ میں نے حیرانگی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا۔ کہ کون ہے۔ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا۔ کہ اللہ کے رسُول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رحلت کر گئے ہیں۔ تو میں کہتا کہ یہ اُن کی رُوح ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک فلسطینی کی رُوح ہے۔ جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا۔ جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کررہا تھا۔ اس کا نام ابو لعبد ہے۔میں نے کہا۔ کاش میں شہید ہو کر مرتا۔
اُس کے بعد کچھ اور فرشتے ہمارے قریب سے گزرے اور اُن کے پاس ایک رُوح تھی۔ جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے کہا یہ بتوں اور گائے کو پوجنے والا ایک ہندو ہے۔ جسے تھوڑی دیر پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کردیا۔ میں نے شکر کیا۔ کہ شکر ہے۔ میں کم ازکم مسلمان مرا ہوں۔ میں نے کہا۔ میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ہورہا ہے۔ میں نے کبھی اس کا تصور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا۔ شکر کرو مسلمان مرے ہو۔ لیکن ابھی تمہارے سامنے سفر بہت لمبا ہے۔ اور بے شمار مراحل ہیں۔
اُس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزرگئے ۔ اور ہم نے انہیں سلام کیا۔ اُنہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟
میرے ساتھ والے دوفرشتوں نے جواب دیا، کہ یہ ایک مسلمان ہے۔ جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکارہو گیا۔ اور اللہ نے ہمیں اس کی رُوح قبض کرنے کا حکم دیا۔ اُنہوں نے کہا۔ مسلمانوں کے لیے بشارت ہے۔ کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں اُنہوں نے کہا۔ یہ وہ فرشتے ہیں۔ جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے رہتے ہیں ۔ میں نے کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم مخلوق ہے۔ اُنہوں نے کہا ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ وہ بولے جبرائیل ؑ اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے۔ اور یہ سب مخلوق ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔
لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون۔ التحریم(وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)۔
اُ سکے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے یہاں تک کہ آسمان دُنیا پر پہنچ گئے ۔ میں اُس وقت ایک خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ نہ معلوم آگے کیا ہوگا۔میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا اور اس کے اندر دروازے تھے ۔ جوبند تھے اور اُن دروازوں پر فرشتے تھے۔ جن کے جسم بہت بڑے تھے۔ ۲ فرشتوں نے کہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور اُن کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے ۔ دوسرے فرشتوں نے جواباَکہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اور انہوں نے کہا۔ رحمت کے فرشتوں اھلا وسھلا ضرور یہ مسلمان ہی ہو گا۔ میرے ساتھ والے فرشتے نے کہا ۔ ہاں یہ مسلمان ہے۔ اُنہوں نے کہا تم اندر آسکتے ہو۔ کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کے لیے کھلتے ہیں۔ کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ (لا تفتح لھم ابواب السماء) کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے۔
ہم اندر آگئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔ پھر ہم آگے بڑھے اور اورپر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں 6تک کہ دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا اوربالآخر ساتوں آسمان پر جا پہنچے ۔ یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آیا جیسے ایک بہت بڑا سمندر۔ فرشتے کہہ رہے تھے: اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذوالجلال والاکرام
مجھ پرایک بہت بڑی ہیبت طاری ہوئی ۔ سر نیچے کیا اور آنسو جاری ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں حکم صادرفرمایا۔ کہ میرے اس بندے کا عمل نام علیین میں لکھدو۔ اور اُسے زمین کی طرف واپس لے جاﺅ۔ کیونکہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں ان کی واپسی ہو گی۔ اور ایک بارپھر اسی زمین سے انہیں اٹھاﺅنگا۔ شدیدرُعب۔ ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں ، میں نے کہا ۔ پروردگار تو پاک ہے۔ لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی۔ جو ہونی چاہیے تھی۔ سبحانک ما عبدناک حق عبادتک
فرشتوں مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جہاں جہاں سے گزرتے گئے دوسرے فرشتوں کوسلام کرتے گئے ۔ میں نے راستے میں اُن سے پوچھا۔ کیا میں اپنے جسم اور گھروالوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟
اُنہوں نے کہا۔ اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے۔ لیکن جہاں تک تمہارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ اُن کی نیکیاں آپ کو پہنچتی رہیں گی۔ لیکن تم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔
اُس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے۔ اور کہا اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ ہمارا کام ختم ہو گیا۔
اب قبر میں تمہارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے، میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپکو جزائےخیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپکو دیکھ سکوں گا؟ اُنہوں نے کہا۔ قیامت کے دن ۔ اور اس کے ساتھ اُن پر ہیبت طاری ہوئی ۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ اگر تم اہل جنت میں سے نکلے۔ تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ان شاء اللہ
میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا۔ اور سُنا۔ کیا اس کے بعد بھی میرے جنت جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا۔ تمہارے جنت جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔تمہیں جو عزت و اکرام ملا۔ وہ اسلئے کہ تم مسلمان مرےہو۔ لیکن تمہیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔
مجھے اپنے گناہ یاد آئے اورکہا کہ زور زور سے روﺅں۔
انہوں نے کہا۔ اپنے رب سے نیک گمان کرو۔ کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہر گز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انہوں نے سلام کیا۔ اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اُٹھ گئے۔
میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی میری آنکھیں بند تھیں۔ اور میرے اردگرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اُس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جا رہا ہے۔ اُن کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی۔ اور جب میرے والددُعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ تو اُن کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔اُس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنچایا گیا۔
میں نے اپنے دل میں کہا۔ افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ختم کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔ افسوس میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر یا نماز یا عباد ت کے بغیر نہ گزارتا، کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس ھائے افسوس۔ اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا ہوں اور نہ دور ہو سکتا ہوں۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اُٹھایا گیا۔ تو جو چیز میرے لئے اُس وقت تکلیف دہ تھی ۔ وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا۔ میں اپنے ابا سے کہدوں ابا جان پلیز رونا بند کردیں بلکہ میرے لئے دُعا کریں۔ کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتے داروں میں اُس وقت جو کوئی میرےلئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے راحت مل جاتی تھی۔
مجھے مسجد پہنچایا گیا۔ اور وہاں اُتارا گیا اور میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاﺅں ۔ میں نے سوچا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کمارہے ہیں۔ جبکہ میرا عمل نامہ بند ہوگیا ہے۔
نماز ختم ہوئی تو موٗذن نے اعلان کیا (الصلوٰۃ علی الرجل یرحمکم اللہ ) امام میرے قریب آیا۔ اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا۔ کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے ۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں؟ اور ان میں کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟
چوتھی تکبیر میں ، میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں مجھے اندازہ کہ وہ لوگوں کی دُعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزید لمبی کردے ۔ کیونکہ لوگوں کی دُعاﺅں سےمجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوئی اور مجھے اُٹھا کر کر قبرستان کی طرف لے گئے راستہ میں کچھ لوگ دُعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے۔اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے تمام گناہ اور غلطیا ں اور ظُلم اور جو غفلت کی گھڑیاں میں نے دُنیا میں گزاری تھیں۔ ایک ایک چیز سامنے آرہی تھی۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس میں گذررہا تھا۔
الغرض قبرستان پہنچا کر مجھے اُتارا گیا۔ اُس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں کوئی کہہ رہا ہے ۔ جنازے کو راستہ دیدو۔ کوئی کہہ رہا ہےاس طرف سے لے جاﺅ ۔ کوئی کہتا ہے قبر کے قریب لکھدو۔ یا اللہ میں نے کبھی اپنے بارے ایسی باتیں نہیں سوچی تھیں۔ مجھے قبر میں رُوح اور جسم کے ساتھ اُتارا گیا۔ لیکن اُنہیں صرف میرا جسم نظر آرہا تھا۔ رُوح نہیں نظر آرہی تھی۔
اُسکے بعد لحد کو بند کرنا شروع کر دیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کے کہدوں، کہ مجھے یہاں نہ چھوڑیں پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ لیکن میں بول نہیں سکتا تھا۔الغرض مٹی ڈالنی شروع ہوئی اور قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں۔لیکن میں اُ ن کے قدموں کی آوازیں سُن رہا تھا۔ اُ ن میں سے جو کوئی میرے لئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے سکون مل جاتا تھا۔اچانک قبر مجھ پر تنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی۔ اور قریب تھا کہ میں ایک چیخ نکال دوں لیکن پھر دوبارہ اصلی حالت پر آگئی ۔
اُس کے بعد میں نے ایک طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے جن کے بڑے بڑے جسم، کالے رنگ، اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی۔ اور اُ ن میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا اگر اُس سے پہاڑ کو مارے تو اُسے ریزہ ریزہ کر دے۔
اُ ن میں سے ایک نے مجھے کہا بیٹھ جاﺅ۔ تومیں فوراَ بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے کہا (من ربک ) تمھار رب کون ہے۔ جس کےہاتھ میں گز تھا۔ وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا۔ (ربی اللہ ) میرا رب اللہ ہے۔ جواب دیتے وقت مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ اس لئے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا۔ بلکہ اُ ن کے رُعب کی وجہ سے۔ پھر اُس نے مزید دو سوال کئے کہہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کونسا ہے اور الحمدللہ میں نے ٹھیک جوابات دیدئیے ۔
اُنہوں نے کہا۔ اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے میں نے پوچھا کیا تم منکر و نکیر ہو؟
اُنہوں نے جواباَ کہا ہاں۔ اور بولے کہ اگر تم صحیح جوابات نہ دیتے تو ہم تمہیں اس گز سے مارتے اور تم اتنی چیخیں نکالتے کہ اُ سے زمین کی ساری مخلوق سُن لیتی۔ سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اور اگر جن و انس اُسے سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔ میں نے کہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اُسکے بعد وہ چلےگئے اور اُن کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا۔
اُ ن کے چلے جانے کے ساتھ ہی مجھے سخت گرمحسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے جیسے کہ جہنم سے کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔ اتنے میں دواور فرشتے نمودار ہوئے اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اُنہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں۔ ہم قبر میں تمہارے اعمال تمہیں پیش کرنے آئے ہیں۔ تاکہ قبر میں قیامت تک تمہیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیے وہ بدلہ مل جائے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں دوچار ہوں۔ میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا نہیں تھا۔
پھر میں نے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ اُنہوں نے کہا ۔ کرلو میں نے پوچھا کیا میں اہل جنت میں سے ہوں۔ اور کیا اتنی ساری تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی میرے لئے جہنم جانے کا خطرہ ہے؟
اُنہوں نے کہا تم ایک مسلمان ہو ۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت جانے کا علم ایک اللہ کے علاوہ کسی کونہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہی رہوگے۔ کیونکہ تم موحد ہو۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں نے کہا اگر اللہ نے مجھے دوزخ بھیج دیا تو پتہ نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟
اُنہوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھو۔ کیونکہ وہ بہت کریم ہے۔ اور اب ہم تمہارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمہارے بلوغت سے وقت سے تمہارے ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔
اُنہوں نے کہا۔ سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے مابین فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ لیکن فی الحال تمہارے سارے اعمال مُعلق ہیں۔
میں نے حیرانگی سے پوچھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کئے ہیں۔ آخر میرے اعمال مُعلق کیوں ہیں؟ اور اس وقت جو میں اپنے جسم میں دُنیا جہاں کی گرمی محسوس کررہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اُنہوں نے کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ تمہارے اُوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیاہے۔
میں روپڑا ۔ اور میں نے کہا۔ کیسے ؟ اور یہ جو میرے اعمال مُعلق ہیں کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟
میرا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ کہ میری قبرمیں اچانک روشنی آگئی۔ اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی۔ کہ ایسی خوشبو نہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سونگھی اور نہ مرنے کے بعد۔
اُس روشنی سے آواز آئی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے پوچھا تم کون ہو؟
اُس نے کہا میں سورۃ المُلک ہوں۔میں اس لئے آئی ہوں کہ اللہ سے تیرے لئے مدد طلب کردوں۔ کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی۔ اور تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بتا دیا تھا۔
کہ جو کوئی سورۃ المُلک پڑھے گا۔ قبر میں وہ اُس کے لئے نجات کا ذریعہ ہوگی۔
میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا میں نے بچپن میں تمہیں حفظ کرلیا تھا۔ اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تیری تلاوت کیا کرتا تھا۔ مجھے اِس وقت تمہاری اشد ضرورت ہے۔اُ س نے کہا اس لئے تو میں آئی ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر لوں کہ وہ تمہاری تکلیف کو آسانی میں تبدیل کر دے۔ لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے۔ کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کئے ہیں۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہے؟
اُس نے کہا۔ تین باتوں میں سے کوئی ایک تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔
میں نے جلدی سے کہا۔ وہ کونسے کام ہیں؟
اُس نے کہا ۔ پہلے یہ بتادو۔کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے ۔جسے دیکھ کر تمہارے ورثہ وہ قرضہ ادا کر دیں؟
ورثہ کا نام سُن کر میرے آنسو نکل آئے ۔مجھے تمام گھروالے امی ، ابو، بیوی، بہن، بھائی اور بچے یاد آئے۔ پتہ نہیں میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس کے ساتھ میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اسکے لئے چاکلیٹ لے کر دے گا؟
میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟
سورۃ المُلک نے پوچھا۔ لگ رہا ہے۔ تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟
میں نے کہا مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے۔ کہ میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے۔ وہی روزی بھی دے گا۔ اور وہی نگہبان بھی ہے۔
سورۃ المُلک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی حاصل ہوئی۔
اُ سکے بعد میں نے پوچھا۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپر ٹوٹل کتناقرضہ ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ میں نے فرشتے سے پوچھا تواُ س نے بتایا کہ ایک ہزار سات سو ریال ۔ 1000 آپ کے دوست کے ہیں جس کا نام ابوحسن ہے۔ اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔
میں نے کہا مختلف لوگ کون ہیں؟
اُ س نے کہا۔ دراصل بلوغت سے لیکر آخری دن تک تم سے کئی بار اس بارے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس طرح قرضہ بڑھ گیا ہے۔ مثلاَپانچ ریال اُس دکاندار کے ہیں جس سے آپ نے کوئی چیز خریدی تھی۔ جبکہ آپکی عمر 15 سال تھی۔ آپ نے اُس سے کہا پیسے کل دیدوں گا۔ اور پھر آپ نے نہیں دئیے۔ اس طرح لانڈری والے سے آپ نے کپڑے دُھلوائے۔ اور اُس کو ادائیگی کرنا بھول گئے ، کرتے کرتے اُس نے سارے لوگوں کے نام بتا دئیے اور سارے مجھے یاد آئے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور اُ ن سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔
کیا تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر نہیں دی تھی۔ کہ شہید کے اعمال بھی روک لئے جائیں گے۔ جب تک اُ س کا قرضہ ادا نہیں ہوا ہو۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟
اُ س نے کہا پہلا حل تو یہ ہے۔ جس کا قرضہ ہے وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔
میں نے کہا۔ اُن میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں ۔جس طرح میں بھول گیا تھا۔ اور اُن کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔
اُس نے کہا۔ پھر دوسرا حل یہ ہے۔ کہ تمہارے ورثہ تمہاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔ میں نے کہا۔ اُ ن کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نام بھی نہیں چھوڑا۔ کیونکہ مجھے موت اچانک آگئی۔ اور مجھے ان ساری مشکلات کا علم نہیں تھا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ ایک اور حل ہو سکتا۔ ہے۔ لیکن میں تھوڑی دیر بعد تمہیں بتا دوں گی۔ اور اب میں جاتی ہوں۔ میں نے کہا خدارا مت جائیے۔ کیونکہ تمہارے جانے سے تاریکی ہو جائے گی۔ جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث ہوبنے گی۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں زیادہ دیر کے لئے نہیں جارہی بلکہ تمہارے لئے کوئی حل نکالنے کے لئے جارہی ہوں۔ اُ س کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا۔ یا ارحم الراحمین۔ اے اجنبیوں کے مولیٰ اور اے ہر اکیلے کے ساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر۔ لیکن فوراَ مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دُعاﺅں کا کیا فائدہ۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔ کہ میں نے ایک مانوس آواز سُن لی۔ میں نے آواز پہچان لی۔ یہ میرے والدبزرگوار کی آوازتھی۔ جو کہہ رہے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے کہا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔لیکن میرا جواب انہیں کون پہنچائے۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ (اللھم اغفرلہ اللہم ارحمہ اللھم وسع مُدخلہ اللھم آنس وحشتہ) پھر انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ اے اللہ میں اس بیٹے سے راضی ہوں۔ تو بھی اس سے راضی ہوجا۔
میرے والد صاحب جب دُعامانگ رہے تھے۔ تو دُعا کے دوران ایک زبردست روشنی میری قبرمیں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا۔ جومیرے والد کی دُعا کو نوٹ کر رہا تھا۔ اور جب تک میرے والد نہیں گئے تھے۔ میرے ساتھ رہا۔
میرے والد صاحب جب واپس ہوئے تو فرشتے نے کہا کہ تیرے والد کی دُعا آسمانوں تک جائے گی۔ اور
ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ کیونکہ والد کی دُعا اپنے بیٹے کے لیے مستجاب ہوتی ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لئے ٹھہرتے اور دُعا مزید لمبی کرتے ۔ کیونکہ اُن کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔ میں نے فرشتے سے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتاہوں۔
کیا پوچھو۔
میں نے کہاجب سے میں مراہوں اب تک کتنا عرصہ گزرگیا؟
اُ س نے کہا۔ جب سے تمہاری وفات ہوئی ۔ آج تیسرا دن ہے۔ اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔
میں نے حیرانگی سے کہا۔ تین دن اور اتنے سارےمعاملات اور واقعات؟ اور یہ قبر کی تاریکی جبکہ باہر دُنیا روشن ہے؟
فرشتے نے کہا۔ تمہارے سامنے بہت لمبا سفر ہے۔ اللہ اسے تمہارے لئے آسان کر دے۔
میں اپنے آپ کو قابو نہ کر سکا اور رونے لگا۔ اور ایسا رویا۔ کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دُنیا میں میری اِس قدر اس سفر کے لیےغفلت!
فرشتے نے جاتے وقت بتا دیا ۔ کہ قبر میں موجودہ روشنی تیرے والد کی دُعا کی وجہ سے ہے۔ اور یہ اسی طرح رہے گی۔ جب تک اللہ چاہے۔ مجھے پتہ چلا کہ والد کا آنا میرے لئے باعث رحمت ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے ابو میری آواز سُن لیں۔ اور میں اُنہیں بتادوں۔ ابو میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں۔ اور میری طرف سے صدقے کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لئے دُعا کریں۔ لیکن کون ہے۔ جو اُنہیں بتا دے۔
میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہو جاتی تھی لیکن اچانک پھر سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا۔ کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دُعائیں ہیں۔
اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی ۔ جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا۔ یعنی سورۃ المُلک کی۔
سورۃ المُلک نے کہا تمہارے لئے دو خوشخبریاں ہیں۔
میں نے اشتیاق کے ساتھ فوراَ کہا ، کیا ہیں؟
تمہارے دوست نے اللہ کی خاطر تمہارا قرضہ معاف کر دیاہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور مجھے پتہ تھا۔ کہ میری گرمی کم ہوجانے کی وجہ شائد یہی تھی۔
میں نے کہا دوسری بشارت کیا ہے؟
اُس نے کہا میں نے اللہ سے بہت درخواستیں کیں۔ لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔
البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا جو تیرے رشتداروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا۔ تاکہ وہ تمہارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔
پھر اس نے پوچھا: تمہارے خیال میں کون بہترہے۔ جس کو خواب میں فرشتہ کسی شکل میں آئے۔ اور پھر وہ اُس کو سچا سمجھ کر قرضہ کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی امی کے بارے میں سوچا۔ لیکن پھرسوچا، کہ اگر اُس نے مجھے خواب میں دیکھا۔ تو رونا شروع کر دے گی۔ اور خواب کی تعبیر نہیں سمجھ سکے گی۔ پھر میں نے تمام رشتداروں کے متعلق سوچا۔ اور جو بندہ مجھے بہتر لگا۔ وہ میری بیوی تھی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ خوابوں کو اہتمام دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا۔ میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے۔ تو ہو سکتا ہے۔ وہ اُس کی تعبیر سمجھ جائے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ آپ کی مشکل کو آسان کر دے۔
اس کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی۔ جو میرے والد کی دُعا کی برکت سے آئی تھی۔ اور میں انتظار کرتا رہا۔ جیسے کہ جیل کے اندر ہوں۔ مجھے ٹائم کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ یہاں گھڑی نہیں تھی۔ نہ نماز، نہ کھاناپینا، نہ اور کوئی مصروفیات۔ دُعائیں مانگنا اور ذکرو اذکار بھی بے کار۔ بعض اوقات لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُن لیتا۔ تو اندازہ کر لیتا کہ شائد کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آجاتی تھیں ۔ تو مجھے تعجب ہوتا تھا۔ کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورت حال سے دوچار ہیں۔
کافی وقت گزرنے کے بعد اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی۔ اور میں چیخنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے میں ایک تندور کے اندرہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا چلاجارہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ بالکل غائب ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کہ ایسا کیوں ہو جاتا ہے۔
اُ س کے بعد ایک بار پھر سورۃ المُلک کی روشنی آگئی ۔ اور مجھے کہا تمہیں مبارک ہو۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اُس نے کہا خوابوں کا فرشتہ تمہاری بیوی کو خواب میں گیا۔ اور تمہاری بیوی نے خواب میں تمہیں ایک سیڑھی پر چڑھتے دیکھا۔ اور دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں۔ اور تم پریشان کھڑے ہو۔ کیونکہ آگے نہیں چڑھ سکتے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اُٹھی۔ تمہاری یاد میں روئی ۔ اور صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا۔ جو خوابوں کی تفسیر کرتی ہے۔ اور اُسے اپنا خواب سنایا۔ اُس عورت نے کہا ، اے بیٹی تمہاری شوہرقبر میں تکلیف میں مبتلا ہے۔ کیونکہ اُس پر کسی کا 1700ریال قرض ہے۔
تیری بیوی نے پوچھا۔ کس کا قرض ہے ۔ اور ہم کیسے ادا کریں؟
اُ س نے کہا مجھے نہیں معلوم اس بارے میں علماء سے معلوم کرو۔
پھر تیری بیوی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا۔ اور اُسے ساری بات بتا دی۔ تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔ الغرض شیخ نے کہا۔ کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دے۔ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُ سے قبول کر کے میت کا عذاب ہٹا دے۔ تیری بیوی کے پاس سونا تھا۔ جس کی قیمت 4000 ریال تھی۔ اُس نے وہ سونا تیرے والد کو دیا۔ اور تیرے والد نے اُ کے ساتھ کچھ رقم مزید لگا کر صدقہ کر دیا۔ اور یوں تیر ا مسئلہ حل ہو گیا۔
میں نے کہا الحمدللہ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تیرے تعاون سے ہوا۔
سورۃ المُلک نے کہا اب اعمال والے فرشتے تمہارے پاس آجائیں گے۔
میں نے پوچھا کیا اس کے بعد بھی میرے لئے کوئی خطرہ ہے؟
اُس نے کہا سفر بہت لمبا ہے۔ ہو سکتا ہے۔ اس میں کئی سال لگ جائیں۔ لہذا ُس کے لئے تیاررہو۔
کئی سال والے جواب نے میری پریشانی میں اضافہ کر دیا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں۔ کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے تھے۔ جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں ہیں۔
میں نے کہا۔ مثلاَ کون سے اعمال؟
اُس نے کہا۔ بہت سارے لوگوں پر قبرو ںمیں اسلئے عذاب ہے۔ کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے۔ اور گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرح چغلی، چوری، سوداور مال یتیم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر عذاب ہورہا ہے۔
پھر اُس نے کہا کہ کچھ لوگوں پر عذاب قبر اس لئے ہے۔ تاکہ قیامت آنے سے پہلے اُن کا کھاتہ صاف ہو جائے۔ اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا۔ اور پھر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔
میں نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ عمل تو تمہارا منقطع ہوچکا ہے۔ البتہ تین کام ایسے ہیں ۔ جو تمہیں اب بھی فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
میں نے پوچھا وہ کیاہیں؟
اُ س نے کہا۔ اہل وعیال کی دُعا اور نیک عمل ۔ اس کے علاوہ کوئی کام اگر تم نے دُنیا میں کیا ہے۔ جو انسانوں کے لئے نفع بخش ہو۔ مثلاَ مسجد کی تعمیر ۔ تو اُس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہو گا۔ اس طرح اگر علم کی نشرو اشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو۔ تو وہ اب بھی تمہارے لئے نفع بخش ہے۔
میں نے کہا میں کتنا بدبخت ہوں کہ دنیا میں کتنے عمل کے مواقع تھے۔ جس سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اور آج بے یارومددگار قبر میں پڑاہوں۔میرا دل چاہا۔ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکارُوں کہ اے لوگوقبر کے لئے تیاری کر لو۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھا۔جو میں نے دیکھا۔ تو مسجدوں سے باہر نہیں نکلو گے،اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دو گے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ مردہ لوگوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
میں نے پوچھا۔ کیا یہ ممکن ہے۔ کہ میرے گھر والے اور میرے رشتےدار مجھے بھول جائیں گے۔ مجھے یقین نہیں آرہا ہے۔ کہ وہ اتنی جلدی مجھے بھول جائیں گے۔
اُ س نے کہا۔ نہیں ضرور ایسا ہوگا۔ بلکہ تم دیکھوگے کہ شروع میں تمہاری قبر پر تمہارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے۔ لیکن جب دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوں گے۔ تو تمہاری قبر پر آنے والا ایک بندہ بھی نہیں ہوگا۔
مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا۔ تو ہم ہر ہفتے اُس کی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر ہر مہینے میں ایک بار اور پھر ہم اُنہیں بھول گئے۔
جب میں زندہ تھا۔ تو مردوں کو بھول جاتا تھا۔ لیکن آج میں خود اُس حالت کو پہنچ چکا ہوں۔ دن ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کے لئے کوئی نہ تھا۔ سوائے چند اعمال کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائیوں اور دوسرے رشتےداروں کا میری قبر پر آنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دُعا پہنچتی رہی۔ جو وہ تہجد میں میرے لئے کرتی رہی۔ بخدا وہ دُعا میرے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔
نیک اعمال کا آنا کم ہوتاچلا گیا۔ نہ معلوم کیا وجہ تھی۔ کہ سورۃ المُلک کا آنا بھی بندہو گیا۔ میری قبر میں پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے۔ جو میں نے کئے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا۔ کتنے گناہ ہیں۔ جو میں نے بڑی دلیری سے کئے تھے۔ کتنی نمازیں ہیں جو میری فوت ہو گئی ہیں۔ کتنی فجر کی نمازیں ہیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں۔
یہ سارے گناہ یاد کر کے میں اتنا رویا کہ مجھے ٹائم کا چونکہ اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے اگر میں کہدوں، کہ مہینوں رویا ہوگا تو مبالغہ نہیں ہو گا۔
ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی۔ جیسے سورج نکل چکا ہو۔ اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں۔ کہ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو چکا ہے۔ کہ میرے پاس سورۃ المُلک آئی اور خوشخبری سُنا دی۔
سورۃ المُلک نے بتایا۔ کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا۔ اور یہ رحمت اور معافی کا مہینہ ہے۔ اور اس بہت سارے مُردے مسلمانوں کی دُعاﺅں کی برکت سے نجات پالیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر کتنا مہربان ہے۔ لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلاہوا ہے۔
سورۃالمُلک نے بتایا۔ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن یہ انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے۔ کہ وہ ایسے گنا ہ کر جاتے ہیں۔ جو اُ کی سزا کا موجب ہوتے ہیں۔پھر اُس نے کہا۔ کہ اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے۔ اور تم اُن کی آوازیں سنوگے۔
سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور روشنی تھی۔ اور میں نے پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سُن لی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا اور تراویح کو یاد کیا تو بہت رویا۔ میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور پھر مٰن نے امام کی دُعا سن لی۔ کہ وہ پڑھ رہا تھا۔
اللهم لا تدع لنا في مقامنا هذا ذنبا الا غفرته ولاهما الا فرجته ولا كربا الا نفستهولا مريضا الا شفيته ولا مبتليً الا عافيته ولا ميتا الا رحمته برحمتك يا ارحم الراحمين۔
اس دُعا سے مجھے بہت سکون ملا۔ اور میں نے تمنا کی۔ کہ امام دُعا کو طول دیدے۔اور میں نے محسوس کیا ، کہ وہ دعا سیدھی قبول ہورہی ہے۔ کیونکہ مجھے اُس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔ میں روتا جا رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ آمین پڑھتا جارہا تھا۔اس طرح رمضان کا سارا مہینہ بہت سکون اور راحت سے گزرا۔
اور پھر ایک دن میری قبرمیں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا۔ جس سے بہت تیز خوشبو آرہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا۔ جو میں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے مجھے سلام کیا اور جواب میں وعلیکم السلام کہا۔ اُس نے کہا۔ میں تمہیں بشارت دیتا ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ معاف کئے ہیں۔
میں نے کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اُس نے کہا میں انسان نہیں ہوں۔ میں نے پوچھا تو کیا آپ فرشتے ہیں بولا نہیں میں دراصل تمہارا نیک عمل ہوں۔ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے، حج۔ انفاق فی سبیل اللہ اور صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس شکل میں تمہارے پاس بھیجا ہے۔
میں بہت خوش ہوا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے پوچھا تم اتنے لیٹ کیوں آئے؟
اُسنے کہا تمہارے گناہ اور تمہارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان کردیا۔ تو میرے لئے راستہ کھل گیا۔
میں نے پوچھا ۔ تو کیا اس معافی کے بدلے میں اللہ تعالیٰ مجھے جنت دے گا؟
اُس نے کہا یہ بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ پھر اُس نے کہا قیامت کے دن میزان سے تمہاری جنت اور دوزخ جانے کا پتہ چلے گا۔
اُس کے بعد عمل صالح نے کہا۔ کہ تمہارے کچھ نیک اعمال بالکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں کام آگئے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟
اُس نے کہا اگر تمہیں یاد ہو۔ تو مرتے وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی اور تم نے کلمہ تشہد پڑھا۔تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ کہ فرشتوں کو کتنی خوشی ہوئی کہ تمہاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا۔ جبکہ شیطان تمہیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کررہا تھا۔اُس وقت تمہارے اردگرد دوقسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور کچھ وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔جب تم نے کلمہ پڑھا۔ تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ اور پھر اُنہوں نے تمہاری رُوح قبض کر لی۔
میں نے پوچھا ۔ اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟
اُ س نے کہا۔ ہاں جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی۔ تو آج جو خوشبو تم سونگھ رہے ہو۔ اُس نصیحت کی بدولت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی والدہ کو تمہاری کال اور اُس کے ساتھ جو بھی تم نے باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کے بدلے تمہارے لئے نیکیاں لکھ دیں۔مجھے یاد آیا جو باتیں میں نے والدہ سے کی تھیں۔ مجھے پتا ہوتا تو میں اُن باتوں میں گھنٹہ لگا دیتا۔
پھرعمل صالح نے بتایا کہ زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمہارے کھاتے میں لکھا گیا۔ میں حیران ہوا۔ اور پوچھا وہ کیسے؟
عمل صالح بولا۔ تم نےبچی سے کہا۔ میں تھوڑی دیر میں آجاﺅنگا۔ اس طرح تم نے اُسے جھوٹ بول دیا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔ میں رویا میں نے کہا اللہ کی قسم میراارادہ جھوٹ کا نہیں تھا۔ بلکہ میرا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ میرے آنے تک صبر کرلیگی۔
اُس نے کہا۔ جو بھی ہو۔ آدمی کو سچ بولنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بہت تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پھر اُس نے کہا۔ تمہاری وہ بات بھی گناہ کے کھاتے میں لکھدی گئی ہے۔ جو تم نے ائیرپورٹ میں کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہدی ۔ کہ اللہ تمہاراحساب کردے۔ اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دُکھادیا۔ میں حیران ہو گیا۔ کہ اتنی اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنی ہیں۔
عمل صالح نے مزیدبتایا: کہ یہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ کہ جب وہ ایک نیکی کریں۔ تو اللہ تعالیٰ اُسے 10گناہ بلکہ 700 گناہ بڑھا دیتا ہے۔اور بہترین اعمال وہ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔
میں نے کہا۔ پنج وقتہ نمازکے بارے میں کیا خیال ہے؟
عمل صالح نے کہا۔ کہ نماز، زکوۃ، صیام، حج وغیرہ تو فرائض ہیں ۔ میں ان کے علاوہ بھی تمہیں ایسے اعمال بتادوں گا۔ جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔
میں نے کہا ۔ وہ کیا ہیں؟
بولا تمہاری عمر جب 20سال تھی۔ تم عمرے کے لئے رمضان کے مہینے میں گئے تھے۔تم نے وہاں 100 ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں بانٹ دی۔ اس کا بہت اجر تم نے کمایا ہے۔
اس طرح ایک بار بوڑھی عورت کو کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی ایک نیک عورت تھی۔ اُس نے تمہیں جو دُعائیں دی ۔ اُس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت نیکیاں اور اجردیا ہے۔
میں تمہیں ایک اور بات بتادوں۔ ایک بار تم مدینہ جارہے تھے۔ کہ راستے میں تمہیں ایک آدمی کھڑا ملا۔ جس کی گاڑی خراب ہوئی تھی۔ تم نے اُس کی جو مدد کی ، اللہ تعالیٰ کو تمہاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمہیں اُس کا بہت بڑا اجرملا ہے۔
اُس کے بعد میری قبر کھل گئی ۔اوراُس میں بہت زیادہ روشنی آگئی۔ اور فرشتوں کے گروہ درگروہ آتے ہوئے نظرآئے۔عمل صالح بھی. ذرا سوچئے!
یہ کہانی عبرت کے لئے لکھی گئی ہے ۔ لیکن احادیث مبارکہ کے بیان کےمطابق ہے۔
-کیا اس کہانی کے سننے کے بعد بھی ہم آخرت کے لئے فکرمند نہیں ہوں گے؟
- کیا اس کہانی کے بعد بھی ہم گناہ کریں گے؟
[ سب سے پہلے سینڈ کر دو
کیونکہ جب تک کوئی یہ پیغامات پڑھتا رہے گا
جنت میں آپ کے نام کا درخت لگتا رہے گا
Dnt Stop this msg. Jazak ALLAH.


                       ..
چھوٹی سی دعا

"اے اللہ"
جب تو اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور پکارے ...
"ہے کوئی رحمت مانگنے والا؟
ہے کوئی خوشیاں مانگنے والا؟
ہے کوئی شفا مانگنے والا؟
ہے کوئی میرے "محبوب"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت مانگنے والا؟

تو میری دعا ہے،
"یا اللہ"
ساری خوشی
ساری رحمت
ساری كاميابياں
ساری بركتیں
ساری نعمتیں
"نبی اے پاک"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت اس شخص کو دےدے جو یہ میسیج پڑھ کے دوسرے کو بھی اس خوبصورت دعا میں شامل کرے ...!
* آمین *
[9:نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.
إن موقعوں پر دعا مانگو اس وقت دعا رد نہیں ہو گی.
1؛-جب دھوپ میں بارش ہو رہی ہو.
2:- جب اذان ہو رہی ہو.
3:- سفر کے دوران.
4:-جمعہ کے دن.
5:-رات کو جب آنکھ کھلے
اس وقت.
6:-مصیبت کے وقت.
7:-فرض نماؤں کے بعد.
آپ (صل اللہ علیہ و سلم ) نے فرمایا:- اللہ👈اس کے چہرے کو روشن کرے.  جو حدیث سن کے آگے پہنچاتا ہے.
(1:-سبحان الله. )
)2:-الحمد وللہ)
)3:-الله آکبر)
پہلے سنڈ کر دو، کیونکہ جب تک کوئی یہ میسج پڑتا رہے گا.
جنت میں آپ کے نام کے پیڑ لگتے رہیں گے.

پاکستان کے مسائل کا حل

پاکستان کے مسائل کا حل:
عزیزان! آپ نے دیکھا کہ پاکستان کے اندرعزاداروں پر قیامت برپا ہوتی ہے،مجالس و جلوس پر حملہ کیا جاتا ہے، مظلوم عزاداروں کو اپنے ہی خون میں نہلادیاجاتا ہے،سینکڑوں عزاداروں کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا، کسی کے کان پر جُوں نہیں رینگتی۔مسلمانوں اورخاص کر تشیع کا ریلا اس ملک میں خاموش تماشائی بنا ہواہے،آج پاکستان کے اندر کروڑوں کی تعداد میں شیعہ موجود ہیں جبکہ دہشتگردمُٹھی بھر ہیں۔اگر یہ اُمت ساقط نہ ہوتی،اگر یہ اُمت جامد نہ ہوتی،اگر اس اُمت کے اندرسکوت نہ ہوتا، اگر یہ اُمت مجسّمہ نہ بنادی گئی ہوتی تو اس اُمت کی ایک حرکت سے دہشت گرد سہم کر مرجاتے۔اگر یہ حرکت اسکے اندر موجود ہوتی تو ایک رات میں اپنے قدموں کے انہیں مکھیوں اورچیونٹیوں کی طرح مسل دیتی۔جس قوم کے پاس اتنے افراد موجود ہیں،جس کے پاس اتنے جوان موجود ہوں اُس قوم کے لئے ننگ ہے کہ ہر جگہ اس قوم کے افراد کو شہید کیا جائے۔ڈیرہ اسماعیل خان کو تشیع کی قتل گاہ بنادیں،کوئٹہ کو تشیع کا مقتل بنادیں،پارہ چنار کو اورہنگو کو تشیع کا مقتل بنادیں اورجس شہر میں جب چاہے تشیع کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردیں اوراتنا جم غفیر تشیع کا، کروڑوں کی تعداد میں اس ملک کے اندر رہتا ہو۔
عزیزان!یہ اس وجہ سے ہوا کہ اس زندہ، متحرک اوربہادر اُمت کے اندرتحجر پھیلادیاگیا،تحجراُس مذہب کانام ہے اُس دین کانام ہے جو انسان کو ورد سکھادیتاہے،جو انسان کو ذکر سکھادیتاہے اورخانقاہ میں لابٹھاتاہے اوراُسے یہ کہتاہے کہ یہ وِرد و ذکر تجھے جنت پہنچادے گا، تجھے اپنے مذہب کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے،تجھے اپنے وطن کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے، تجھے اپنی قوم کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے، جب مذہب تحجر بنادیاجاتاہے تو متحجر فقط ذکر و فکر پر اکتفا کرکے گھر میں جا بیٹھتا ہے اور جنت کی آرزو لگا بیٹھتاہے۔
تحجر کے مقابلے میں دینِِ شبیری :

North Pole Temperatures Climb Near Melting Points

A weather buoy floating 144 km (90 miles) south of the North Pole registered a temperature at the melting point of 32 degrees (0 Celsius) last Thursday. For perspective, the recently recorded temperature at the North Pole is about 50 degrees Fahrenheit warmer than normal. Because, according to the Norwegian Meteorological Institute, the region should be around -30°C (-22°F).


The Arctic has seen a dramatic transformation in recent years, with significantly warmer temperatures, lower levels of sea ice, and more open water.
In November, the average Arctic sea ice extent — the measurement scientists use to represent the area of ocean where there is at least some sea ice — was 17.7 percent below the averages from 1981 to 2010, according to NOAA. That’s the lowest November extent since the NOAA began keeping records in 1979.
“In reviewing historical records back to 1958, one cannot find a more intense anomaly – except following a similar spike just five weeks ago,” The Washington Post.
  
This is the second time in the past five weeks such a steep rise in temperatures has occurred. In mid-November, temperatures averaged over the high Arctic were also about 30-35 degrees above normal.
As Petteri Taalas, secretary-general of the World Meteorological Organisation (WMO), said in November:
“IN PARTS OF ARCTIC RUSSIA, TEMPERATURES WERE 10.8 TO 12.6°F [6°C TO 7°C] ABOVE THE LONG-TERM AVERAGE. MANY OTHER ARCTIC AND SUB-ARCTIC REGIONS IN RUSSIA, ALASKA, AND NORTHWEST CANADA WERE AT LEAST 5.4°F [3°C] ABOVE AVERAGE.”
We are used to measuring temperature records in fractions of a degree, and so this is different.

According to The Washington Post, preliminary data from the US National Snow and Ice Data Centre indicate that the Arctic lost about 148,000 square kilometers (57,000 square miles) of ice in the past 24 hours.That’s enough ice to cover the entire state of Illinois.
While these figures still need to be independently confirmed, we do know that sea ice off the coasts of both Antarctica and the Arctic hit record lows in November. As of December 4, we’d lost 3.76 million square kilometers of the stuff – more than the total area of India.

north-pole-temperature-hits-melting-point-ScienceOHolic
as of December 4, a hunk of sea ice bigger than India has vanished.source-sciencealert.com

“If nothing is done to slow climate change, by the time global warming reaches 2°C (3.6°F), events like this winter would become common at the North Pole, happening every few years,” said research organisation, Climate Central.
If an unusually warm North Pole stressing us all out just before Christmas is giving you some serious déjà vu, you’re spot on.While the past couple of months have seen unusually rapid spikes in temperature, this isn’t the first time the North Pole has hit melting point. An almost identical event occurred this time last year, when the North Pole crept over 0°C… in winter.




Size Does Matter In Breast Cancer

Breast cancer is cancer that develops from breast tissue.Signs of breast cancer may include a lump in the breast, a change in breast shape, dimpling of the skin, fluid coming from the nipple, or a red scaly patch of skin.In those with distant spread of the disease, there may be bone pain, swollen lymph nodesshortness of breath, or yellow skin.
Risk factors for developing breast cancer include being female, obesity, lack of physical exercise, drinking alcoholhormone replacement therapy during menopauseionizing radiation, early age at first menstruation, having children late or not at all, older age, and family history.
http://scienceoholic.com/wp-content/uploads/2016/12/bc-1-1-1021x580.jpg

ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ

ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ کی ﺷﺎﺩﯼ عالمہ لڑکی سے ہوئی۔ پہلے دن ہی عالمہ بیگم  ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﮧ ﮬﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔
ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ میل اور عالمہ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ۔ پھر ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮬﻢ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﮩﺪ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﺳﺴﺮ ﻭ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻭﺍﺟﺐ نہ ہی ایسا کوئی حکم ہے۔ ﺍﻭﺭ ھاں ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﻟﻮ - ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﮍﺍ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﻨﮯ ﮔﺎ -
ﺍﺱ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻔﺘﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮬﯿﻠﭗ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﻔﺘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﯿﺎ ﮬﻮﮞ - ﻣﻔﺘﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ - ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﻣﺴئلے ﮐﮯ ﺣﻞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ ﻓﺘﻮﯼ ﻟﯿﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻣﻔﺘﯽ ﺻﺎﺣﺐ سوچا اور ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺕ تو اپ کی بیگم ﮐﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮑﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ شاندار ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﯿﺪﮬﺎ گھر ﺟﺎو ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﺘﺎو ﮐﮧ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﯿﮕﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﯾﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺁﭖ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺩﮬﺮ ﺭﮬﯿﮕﯽ -
ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺳﭩپٹا ﮔﺌﯽ۔ ﺍﻭﺭجلدی سے ﺑﻮﻟﯽ ﭼﻠﻮ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺮﻭ ﺩﻭﺳﺮﯼ شادی کو ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﮬﯽ ﺭﮬﻮﻧﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﻭﻧﮕﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﮬﮯ۔
-----------------------
ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ بیٹھا کریں کیونکہ ہر ﻣﺴئلہ ﮐﺎ ﺣﻞ ﮔﻮﮔﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ....!!

مسئلہ شرعی

✍🏻مسئلہ شرعی✍🏻

سوال ❓

 کافروں کی بنائی ہوئی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب 🔅

اگر عریان یا نیمہ عریان ہو اور شہوت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہو تو حرام ہے ہے، بلکہ احتیاط واجب کی بناء پر بغیر لذت کے بھی دیکھنا حرام ہے۔

بمطابق فتوی آیة ٰ الله العظمی السید علي الحسيني السيستاني دام ظله العالی


🙏 پیر کے دن کی دعا 🙏

 بسم الله الرحمن الرحيم

أَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يُشْهِدْ أَحَدَاً حِينَ فَطَرَ السَّمواتِ وَالاَرْضَ، وَلاَ اتَّخَذَ مُعِيناً حِينَ بَرَأَ النَّسَماتِ.

لَمْ يُشارَكْ فِي الالهِيَّةِ، وَلَمْ يُظَاهَرْ فِي الْوَحْدانِيَّةِ.

كَلَّتِ الاَلْسُنُ عَنْ غايَةِ صِفَتِهِ، وَ الْعُقُولُ عَنْ كُنْهِ مَعْرِفَتِهِ، وَتَوَاضَعَتِ الْجَبابِرَةُ لِهَيْبَتِهِ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِخَشْيَتِهِ، وَانْقَادَ كُلُّ عَظِيم لِعَظَمَتِهِ.

فَلَكَ الْحَمْدُ مُتَوَاتِراً مُتَّسِقاً، وَمُتَوَالِياً مُسْتَوْسِقَاً.

ـ وَصَلَواتُهُ عَلَى رَسُولِهِ أَبَدَاً، وَسَلامُهُ دَآئِماً سَرْمَدَاً.

أَللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوَّلَ يَوْمِي هذَا صَلاحَاً، وَأَوْسَطَهُ فَلاحَاً، وَآخِرَهُ نَجاحَاً، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ يَوْم أَوَّلُهُ فَزَعُ، وَأَوْسَطُهُ جَزَعٌ، وَآخِرُهُ وَجَعٌ.

أَللَّهُمَّ إنِّي أَسْتَغْفِرُكَ لِكُلِّ نَذْر نَذَرْتُهُ، وَلِكُلِّ وَعْد وَعَدْتُهُ، وَلِكُلِّ عَهْد عاهَدْتُهُ، ثُمَّ لَمْ أَفِ لَكَ بِهِ.

وَأَسْأَلُكَ فِي مَظالِمِ عِبادِكَ عِنْدِي، فَأَيُّما عَبْد مِنْ عَبِيدِكَ، أَوْ أَمَة مِنْ إمآئِكَ، كَانَتْ لَهُ قِبَلِي مَظْلَمَةٌ ظَلَمْتُها إيَّاهُ فِي نَفْسِهِ، أَوْ فِي عِرْضِهِ، أَوْ فِي مالِهِ، أَوْ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ، أَوْ غَيْبَةٌ اغْتَبْتَهُ بِها، أَوْ تَحامُلٌ عَلَيْهِ بِمَيْل أَوْ هَوَىً، أَوْ أَنَفَة، أَوْ حَمِيَّة، أَوْ رِيآء، أَوْ عَصَبِيَّة غائِباً كانَ أَوْ شاهِداً، وَحَيّاً كانَ أَوْ مَيِّتاً، فَقَصُرَتْ يَدِي، وَضاقَ وُسْعِي عَنْ رَدِّها إلَيْهِ، وَالتَّحَلُّلِ مِنْهُ.

ـ فَأَسْأَلُكَ يا مَنْ يَمْلِكُ الْحاجاتِ، وَهِيَ مُسْتَجِيبَةٌ بِمَشِيَّتِهِ وَمُسْرِعَةٌ إلى إرادَتِهِ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد ، وَأَنْ تُرْضِيَهُ عَنِّي بِما شِئْتَ، وَتَهَبَ لِي مِنْ عِنْدِكَ رَحْمَةً، إنَّهُ لا تَنْقُصُكَ الْمَغْفِرَةُ، وَلا تَضُرُّكَ المَوْهِبَةُ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.

ـ أَللَّهُمَّ أَوْلِنِي فِي كُلِّ يَوْمِ اثْنَيْنِ نِعْمَتَيْنِ مِنْكَ ثِنْتَيْنِ: سَعادَةً فِي أَوَّلِهِ بِطاعَتِكَ، وَنِعْمَةً فِي آخِرِهِ بِمَغْفِرَتِكَ يامَنْ هُوَ الاِلهُ، وَلا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ سِواهُ.

☀پیر دن کی زیارت ☀

👈 زیارت حضرت امام حسن علیہ السلام

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا ابْنَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا ابْنَ أَمِیرِ الْمُومِنِینَ اَلسَّلاَمُ
عَلَیْکَ یَا ابْنَ فاطِمَةَ الزَّھْرَاءِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حَبِیبَ اللهِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا صِفْوَةَ اللهِ
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا أَمِینَ اللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ اللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نُورَ اللهِ اَلسَّلاَمُ
عَلَیْکَ یَا صِرَاطَ اللهِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا بَیَانَ حُکْمِ اللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَاصِرَ دِینِ اللهِ
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَ یُّھَا السَّیِّدُ الزَّکِیُّ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَ یُّھَا الْبَرُّ الْوَفِیُّ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّھَا
الْقَائِمُ الْاَمِینُ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَ یُّھَا الْعَالِمُ بِالتَّأْوِیلِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَ یُّھَا الْھَادِی الْمَھْدِیُّ،
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَ یُّھَا الطَّاھِرُ الزَّکِیُّ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّھَا التَّقِیُّ النَّقِیُّ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّھَا
الْحَقُّ الْحَقِیقُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الشَّھِیدُ الصِّدِّیقُ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا أَبَا مُحَمَّدٍ الْحَسَنَ
بْنَ عَلِیٍّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکاتُہُ۔

👈زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا ابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا
ابْنَ سَیِّدَةِ نِساءِ الْعالَمِینَ ۔ أَشْھَدُ أَ نَّکَ أَقَمْتَ الصَّلاَةَ، وَآتَیْتَ الزَّکَاةَ،وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ،
وَنَھَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَعَبَدْتَ اللهَ مُخْلِصاً، وَجَاھَدْتَ فِی اللهِ حَقَّ جِہادِھِ حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِینُ،
فَعَلَیْکَ اَلسَّلاَمُ مِنِّی مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ، وَعَلَی آلِ بَیْتِکَ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ أَ نَاَ
یَا مَوْلاَیَ مَوْلیً لَکَ وَ لاَِلِبَیْتِکَ، سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ مُومِنٌ بِسِرِّکُمْ
وَجَھْرِکُمْ وَظَاھِرِکُمْ وَبَاطِنِکُمْ لَعَنَ اللهُ أَعْدائَکُمْ مِنَ الْاَوَّلِینَ وَالاخِرِینَ وَأَنَا أَبْرَأُ إِلَی اللهِ تَعالی
مِنْھُمْ یَا مَوْلاَیَ یَا أَبا مُحَمَّدٍ، یَا مَوْلاَیَ یَا أَبا عَبْدِاللهِ، ہذا یَوْمُ الاثْنَیْنِ وَھُوَ یَوْمُکُما وَبِاسْمِکُما
وَأَ نَا فِیہِ ضَیْفُکُما، فَأَضِیفانِی وَأَحْسِنا ضِیَافَتِی، فَنِعْمَ مَنِ اسْتُضِیفَ بِہِ أَ نْتُمَا، وَأَ نَا فِیہِ مِنْ جِوارِ
کُما فَأَجِیرانِی، فَإِنَّکُمَا مَأمُورانِ بِالضِّیافَةِ وَالْاِجارَةِ، فَصَلَّی اللهُ عَلَیْکُمَا وَآلِکُمَا الطَّیِّبِینَ ۔

✨اللهم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجهم ✨
۔۔۔۔۔محمد عظیم حر النجفی
📱00923067701214📱
Whatsapp .............نمبر👆🏻
📱00923350512145📱
برائے رابطہ نمبر 

खिलाफते राशिदा और खिलाफते बनू उमय्या

bismillahir rahmanir Rahim
पोस्ट 4 :🏴🏴🏴
खिलाफते राशिदा और खिलाफते बनू उमय्या

🏴हज़रत अली (رضي الله عنه)

🏴हज़रत अली (رضي الله عنه) की ख़िलाफ़त बडी़ मुश्किल औखिलाफते राशिदा और खिलाफते बनू उमय्यार पेचीदा परिस्थितियों में शुरू हुई।🐎

हज़रत अली (رضي الله عنه) ने तक़रीबन चार साल ख़िलाफ़त की। शाम और मिस्र के अलावा बाक़ी तमाम सल्‍तनत उनके क़ब्‍जे़ में थी। चूँकि उनका ज़माना ज्‍़यादातर ख़ानाजंगी में गुज़रा इसलिए कोई नया मुल्‍क फ़तह नहीं किया गया। हज़रत अली (رضي الله عنه) की शासन-व्‍यवस्‍था बहुत हद तक हज़रत उमर (رضي الله عنه) जैसी थी। उनकी ज़िन्दगी भी उन्‍हीं की तरह सादा थी। फ़ैसला करते समय वे बडे से बडे आदमी की, यहॉं तक कि अपने रिश्‍तेदारों की भी रियायत नहीं करते थे। वे ख़ुद को आम जनता के बराबर समझते थे और हमेशा जवाबदेही के लिए तैयार रहते थे। हज़रत अली (رضي الله عنه) ने अपने बाद किसी को जानशीन (उत्‍तराधिकारी) मुक़र्रर नहीं किया।

🏴आर्थिक न्‍याय 📚

आर्थिक न्‍याय भी इन्‍सानी समाज की बुनियादी ज़रूरत है और ख़िलाफ़ते राशिदा में इस पर पूरी तवज्‍जोह दी गई। बैतुलमाल की रक़म क़ौम की अमानत समझी जाती थी। ख़लीफ़ा इस रक़म को न अपने आप पर ख़र्च करते थे और न अपने रिश्‍तेदारों पर। ख़लीफ़ा के अपने ख़र्चे के लिए उनकी तनख्‍़वाहें मुक़र्रर होती थी और यदि उन्‍हें कभी तनख्‍़वाह के अलावा पैसे की ज़रूरत होती थी तो वह उसे लेने से पहले अवाम से इजाज़त लेते थे। हज़रत उसमान (رضي الله عنه) चूँकि दौलतमंद थे, इसलिए वह बैतुलमाल से कोई तनख्‍़वाह नहीं लेते थे। बैतुलमाल को जिस प्रकार ख़लीफ़ा ने क़ौम की अमानत समझा और इस सम्‍बन्‍ध में जिस ज़िम्मेदारी के अहसास का सबूत दिया उसकी मिसाल दुनिया के इतिहास में नही मिलता।

🏴जंगों में जिहाद की रूह🐎
🌍
इस्‍लाम में जंग सिर्फ ख़ुदा की राह में जायज़ है और इसीलिए इस्‍लामी जंग को 'जिहाद फ़ी सबीलिल्‍लाह' कहा जाता है। मुसलमानों का तरीक़ा था कि लडा़ई शुरू करने से पहले दुश्‍मन को इस्‍लाम की दावत देते थे और जब वह इन्‍कार कर देता तो इस्‍लामी रियासत का आज्ञापालक बनने को कहते थे और जंग तभी शुरू करते थे जब दुश्‍मन इन दो बातों को रद्द कर देता था। यह दुनिया की तारीख़ में बिल्‍कुल नई चीज़ थी और इसने जंग को प्रसिद्धि, सामाज्‍य विस्‍तार और दूसरों को दास बनाने का ज़रिया बनाने के बजाय सुधार का ज़रिया बना दिया था। यही कारण है कि जब जंग का सिलसिला शुरू हुआ तो लोगों ने देखा कि मुसलमानों को इन लडा़इयों में लूट-खसोट, बर्बरता, ज़ुल्‍म और अत्‍याचार नज़र नहीं आता जो जंग के साथ अनिवार्य समझा जाता है।
शाम (सीरिया) पर चढा़ई के लिए जब पहला लश्‍कर मदीना से रवाना हुआ तो हज़रत अबू बक्र (رضي الله عنه) ने जो इस हिदायतें दीं वे जंगों की तारीख में 'मील का पत्‍थर' की हैसियत रखती हैं। आपने हिदायत की कि किसी औरत, बूढे़ और बच्‍चे का क़त्‍ल न किया जाए, फलदार पेडो़ं को न काटा जाए, आबाद जगह वीरान न की जाए, नख़लिस्‍तान (मरूद्यान) न जलाए जाए और ईसाई पादरियों को क़त्‍ल न किया जाए। ये हिदायतें एक बार नहीं बार-बार दी गई और इन पर पूरी तरह अमल भी किया गया।
ख़िलाफ़ते राशिदा में जंगों की जीत न सिकन्‍दर की जीतों से कम थी और न रूमियों और हूणों की जीतों से। लेकिन इसके बाद भी ख़िलाफ़ते राशिदा की जीतें इतनी शान्ति पूर्ण थी कि उन्‍हें जंगों की बजाय लूटेरो के खिलाफ़ पुलिस की कार्यवाही क़रार देना ज्‍़यादा सही है। कहीं क़त्‍ले आम नहीं हुआ, शहरों को उजाडा़ और लूटा नहीं गया और न कही औरतों की बेइज्‍़ज़ती हुई। एक बार एक शख्‍़स के खेतों को फ़ौज से नुक्‍़सान हुआ तो उसने मुक़दमा कर दिया और हज़रत उमर (رضي الله عنه) ने उसको हर्जाना दिलाया। फ़ौज के सदाचरण का यह हाल था कि जब दमिश्‍क (Damascus) में दाखिल हुई तो घर के छज्‍जों से रूमियों की औरतें उन्‍हें देखने के लिए जमा हो गई थीं, लेकिन किसी फ़ौजीं ने उन्‍हें आंख उठाकर नहीं देखा। इसलिए कि क़ुरआन में ऐसे मौक़ो पर नज़रें नीची रख़ने की शिक्षा दी गई थी। इमाम मालिक (رحمت اللہ علیہ) कहते है कि जब सहाबा की फ़ौजें शाम (सीरिया) की सरज़मीन में दाखिल हुई तो शाम के ईसाई कहते थे कि मसीह के हवारियों की जो शान हम सुनते थे, ये तो उसी शान के लोग नज़र आते हैं।

📚ख़िलाफ़ते राशिदा में तालीमी व्‍यवस्‍था

इस्‍लामी समाज में रिश्‍वत सबसे घटिया अपराध माना जाता है। ख़िलाफ़ते राशिदा का दौर इस बुराई से पाक था और इसका सबसे बडा़ कारण यह था कि वे इस्‍लामी आदेशों पर अमल करना ईमान में शामिल समझते थे। ख़िलाफ़ते राशिदा में सरकारी देख-रेख में शिक्षा के विकास पर बल दिया गया। इस्‍लामी ख़िलाफ़त की सीमा में हर जगह क़ुरआन की शिक्षा के लिए मकतब क़ायम किए गए जिनमें पढ़ना और लिखना दोनों सिखाए जाते थे। इन मकतबों में तनख्‍़वाहदार शिक्षक रखे गए थे। सिर्फ हज़रत उमर (رضي الله عنه) के ज़माने में मस्जिदों की तादाद चार हज़ार से ज्‍़यादा हो गई थी। ये मस्जिदें, जिनमें तनख्‍़वाहदार इमाम और मोअज़्ज़िन रखे गए थे, बाद में धीरे-धीरे मदरसों में बदलती गई। शिक्षा के विकास और व्‍यापकता का अंदाज़ा इस बात से लगाया जा सकता है कि हज़रत उमर (رضي الله عنه) के अहद में सिर्फ़ कूफ़ा शहर में तीन सौ हाफिजे़ क़ुरआन थे जो मदीना के बाद शिक्षा का सबसे बडा़ केन्‍द्र था। दूसरे बडे शिक्षा के केन्‍द्र मक्‍का, बसरा, दमिश्‍क़ और फिस्‍तात थे।

🏴ख़िलाफ़ते राशिदा में रहने वाले ग़ुलाम और ज़िम्‍मी 🏴

ख़िलाफ़ते राशिदा में ग़ुलामी-प्रथा के सुधार और समाप्ति के सिलसिले में कई क़दम उठाए गए। इस ज़माने में ग़ुलामों को बडी़ तादाद में आज़ाद किया गया और अंदाज़ा है कि ख़िलाफ़ते राशिदा के ज़माने में 39 हज़ार से ज्‍़यादा ग़ुलाम आज़ाद किए गए। हज़रत उमर (رضي الله عنه) ने विशेष रूप से ग़ुलामी-प्रथा की समाप्ति के सिलसिले में कई क़दम उठाए। हज़रत अबू बक्र (رضي الله عنه) के दौर में जो लोग ग़ुलाम बनाए गए थे, हज़रत उमर (رضي الله عنه) ने उन सबको आज़ाद कर दिया और हुक्‍म दिया कि अब किसी को ग़ुलाम बिल्‍कुल न बनाया जाए। गै़र-अरब को भी ग़ुलाम बनाने के सिलसिले में हज़रत उमर (رضي الله عنه) ने प्रोत्‍साहन नहीं दिया। जब मिस्र से कुछ ग़ुलाम मदीना लाए गए तो हज़रत उमर (رضي الله عنه) ने उन्‍हें वापस कर दिया और मिस्र के हाकिम हज़रत अम्र बिन आस (رضي الله عنه) को उन्‍होंने जिन शब्‍दों में निर्देश दिया उसे ग़ुलामी के इतिहास में हमेशा स्‍वर्णाक्षरों से लिखा जाएगा। आपने लिखा – ''इनकी मांओं ने इन्‍हें आज़ाद जना है और किसी को यह हक़ नहीं पहुँचता कि वह इनका यह फितरी हक (प्राकृतिक अधिकार) छीन ले।''
हज़रत उमर (رضي الله عنه) ग़ुलामों का इतना ख्‍़याल रखते थे कि उन्‍हें अपने साथ बिठाकर खाना खिलाते थे। उन्‍होंने एक बार एक हाकिम को केवल इस जुर्म में अपदस्‍थ कर दिया था कि वह बीमार ग़ुलाम की 'अयादत' (बीमार का हाल पूछना) को नहीं गए थे। हज़रत उमर (رضي الله عنه) ने वज़ीफ़ा तय करते समय भी आक़ा और ग़ुलाम का फ़र्क़ मिटा दिया और ग़ुलामों का वज़ीफ़ा उनके आक़ाओं के बराबर मुक़र्रर किया। ग़ुलाम आज़ाद करना चूँकि सवाब (पूण्‍य) का काम था इसलिए हज़रत उसमान (رضي الله عنه) हर जुमा को एक ग़ुलाम आज़ाद करते थे।
ख़िलाफ़ते राशिदा के ज़माने में सिर्फ़ वही लोग ग़ुलाम बनाए जा सकते थे जो जंगों में पकडे़ जाते थे। उनकी हैसियत दरअसल जंगी क़ैदियों की होती थी। चूँकि उन्‍हें सारी उम्र क़ैदी की हैसियत में रखना ग़ैर-इन्‍सानी काम होता, जैसा की आजकल होता है जिस मे जंग मे दौरान या सरहदों पर क़ैद किये गये क़ैदियों को पूरी ज़िन्दगी दुश्मन मुल्क मे क़ैद रहना पड जाता है, इसलिए उन्‍हें ग़ुलाम बनाकर घर और समाज का उपयोगी सदस्‍य बना लिया जाता था।

🏴इस्‍लाम का प्रचार (दावत)

ख़िलाफ़ते राशिदा की सीमा में विभिन्‍न नस्‍ल, भाषा और धर्म से सम्‍बन्‍ध रखने वाली क़ौमे आबाद थीं। ईरान, इराक़, शाम और मिस्र में इस्‍लाम तेज़ी से फैल रहा था और यहॉं की क़ौमें अपने पैतृक धर्म को छोड़कर इस्‍लाम में शामिल हो रही थीं, लेकिन इन मुल्‍कों की बहुसंख्‍यक अब भी गै़र-मुस्लिम थी। मुसलमान नागरिकों को, चाहे वे किसी मुल्‍क अथवा नस्‍ल से सम्‍बन्‍ध रखते हों, वही अधिकार प्राप्‍त थे जो अरब मुसलमानों को प्राप्‍त थे। उनका गै़र-अरब होना अरबों के बराबर अधिकार प्राप्‍त करने की राह में बाधक नहीं था। आम नागरिक की हैसियत से गै़र-मुस्लिमों को मुसलमानों के बराबर अधिकार प्राप्‍त थे। इस्‍लामी हुकूमत ने चूँकि अनकी उन्‍नति और सुरक्षा की ज़िम्मेदारी अपने जिम्‍मा ली थी, इसलिए उस गै़र-मुस्लिम आबादी को ज़िम्‍मी कहा जाता था। ज़िम्मियों पर फ़ौजी सेवा अनिवार्य नहीं थी और इसके बदले में उनसे एक मामूली टैक्‍स लिया जाता था जो जिज्‍़या कहलाता था। ख़िलाफ़ते राशिदा में इसकी मिसालें मौजूद हैं कि जब मुसलमान किसी जीते हुए इलाक़े की हिफाज़त नहीं कर सकते थे और उस इलाक़े को ख़ाली करने को मजबूर होते थे तो जिज्‍़या की रक़म गै़र-मुस्लिमों को वापस कर देते थे। जंगें हारी हुई क़ौमों और दूसरे धर्मो के लोगों से ऐसे न्‍याय पर आधारित सुलूक की मिसाल इस्लामी खिलाफत के अलावा दूसरी ग़ैर-इस्लामी रियासतों के इतिहास मे नहीं मिलेगी। इस्‍लामी हुकूमत मुसलमानों की तरह गै़र-मुस्लिमों के आर्थिक आत्‍मनिर्भरता की भी जिम्‍मेदार थी और गै़र-मुस्लिम मुहताज हो जाते थे उन्‍हें सरकारी बैतुलमाल से वज़ीफ़ा दिया जाता था। कुछ जगहों की ज़िम्‍मी आबादी को एक विशेष प्रकार का लिबास पहनने की हिदायत दी गई थी, परन्‍तु उसका मक़सद उन्‍हें अपमानित करना नहीं था जैसा कि कुछ ग़ैर-मुस्लिम इतिहासकार इल्‍ज़ाम लगाते हैं। इस्‍लाम में चूँकि लिबास के मामले में मुसलमानों को गै़र-मुस्लिमों से एकरूपता पैदा करने से मना किया गया है, इसलिए इस पाबंदी का मक़सद दोनों क़ौमों की व्‍यक्तिगत पहचान को क़ायम रखना था, किसी को अपमानित करना या किसी को निम्‍न समझना इस आदेश का मक़सद नहीं था।
किसी क़ौम की तारीख़ में तीस साल की अवधि बहुत कम होती है। परन्‍तु ठोस कारनामों को सामने रखा जाए तो ख़िलाफ़ते राशिदा के ये तीस साल दूसरी क़ौमों के सैकडो़ सालों के इतिहास पर भारी हैं। इस अल्‍प अवधि में इस मामूली रियासत जो अरब प्रायद्वीप तक सीमित थी, दुनिया की सबसे बडी़ और शक्तिशाली रियासत बन गई।
इराक़, शाम और मिस्र थे, जहॉं इन्‍सान ने सबसे पहले सभ्‍यता का पाठ पढा़ था और जिसके कारण उस क्षेत्र को सभ्‍यता का केन्‍द्र कहा जाता है। तीस साल की इस अल्‍प अवधि में उन तमाम प्रचीन क़ौमों की राजनीतिक शक्ति ही ख़त्‍म नहीं हुई, बल्कि सभ्‍यता के मैदान में भी उन्‍हें हार माननी पडी़। उन्‍होंने तेज़ी से अपने पुराने धर्म को छोड़कर इस्‍लाम क़बूल करना शुरू किया कि आगामी पचास-साठ साल की अवधि में उन मुल्‍कों की लगभग सारी आबादी मुसलमान को गई और ये मुल्‍क हमेशा के लिए इस्‍लामी दुनिया का हिस्‍सा बन गए। धर्म के साथ ही इन क़ौमों का जीवन से सम्‍बन्धित दृष्टिकोण भी बदल गया और इस प्रकार एक नई सभ्‍यता का बुनियाद पडी़ जो स्‍थानीय विशेषताओं के बावजूद इस्‍लामी सभ्‍यता सभ्‍यता कहलाई और जिसके चिह्न चौदह सौ साल बाद आज भी बाक़ी हैं। मुसलमानों की यह महान सफलता, तलवार का नतीजा नहीं थी, बल्कि इस्‍लाम की श्रेष्‍ठ एवं उच्‍च शिक्षाओं का नतीजा थी।

 ___
नेक्स्ट........🏴🏴🏴
ख़िलाफत के कारनामे
ख़िलाफते राशिदा के बाद

पूरब और पश्‍चिम की फ़तह
खिलाफते बनू उमय्या का दौर
अमीर मुआविया (رضي الله عنه)
🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴

दौर-ए-हयात आएगा क़ातिल, क़ज़ा के बाद

दौर-ए-हयात आएगा क़ातिल, क़ज़ा के बाद
है इबतिदा हमारी तेरी इंतिहा के बाद


जीना वो किया कि दिल में ना हो तेरी आरज़ू
बाक़ी है मौत ही दिल-ए-बे मुद्दा के बाद


तुझ से मुक़ाबले की किसे ताब है विले
मेरा लहू भी ख़ूब है तेरी हिना के बाद


लज़्ज़त हनूज़ माइदा-ए-इशक़ में नहीं
आता है लुत्फ -जुर्म-ए-तमन्ना, सज़ा के बाद


क़तल ह्सैन असल में मर्ग यज़ीद है
इस्लाम ज़िंदा होता है हर कर्बला के बाद

خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے کوشش جاری رکھیں

                        ایک پانچ چھ. سال کا معصوم سا بچہ 👦اپني چھوٹی بہن 👩 کو لے کر مسجد کے ایک طرف کونے میں بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا.

کپڑے میں میل لگا ہوا تھا مگر نہایت صاف، اس کے ننھے ننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے.
بہت سے لوگ اس کی طرف متوذو تھے اور وہ بالکل بے خبر اپنے اللہ سے باتوں میں لگا ہوا تھا.

جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کے اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا
"کیا مانگا اللہ سے"
اس نے کہا
"میرے پاپا مر گئے ہیں ان کے لئے جنت،
میری ماں روتی رہتی ہے ان کے لئے صبر،
میری بہن ماں سے کپڑے سامان مانگتی ہے اس کے لئے رقم ".
"آپ کو اسکول جاتے ہو"
اجنبی نے سوال کیا.
"ہاں جاتا ہوں" اس نے کہا.
"کس کلاس میں پڑھتے ہو؟" اجنبی نے پوچھا
"نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا، ماں چنے بنا دیتی ہے وہ اسکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں، بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں، ہمارا یہی کام دھندہ ہے" بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا.

"تمہارا کوئی رشتہ دار"
نہ چاہتے ہوئے بھی اجنبی بچے سے پوچھ بیٹھا.
"پتہ نہیں، ماں کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا،
ماں جھوٹ نہیں بولتی،

پر انکل،
مجھے لگتا ہے میری ماں کبھی کبھی جھوٹ بولتا ہے،
جب ہم کھانا کھاتے ہیں ہمیں دیکھتی رہتی ہے،
جب کہتا ہوں
ماں آپ بھی کھاؤ، تو کہتی ہے میں نے کھا لیا تھا، اس وقت لگتا ہے جھوٹ بولتا ہے "
"بیٹا اگر تمہارے گھر کا خرچ مل جائے تو پڑھائی کرو گے؟"
"بلكل نہیں"
"کیوں"

"تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں انکل،
ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا - پاس سے گزر جاتے ہیں "
اجنبی حیران بھی تھا اور پریشان بھی.

پھر اس نے کہا "ہر روز اسی اس مسجد میں آتا ہوں، کبھی کسی نے نہیں پوچھا - یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے - مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا

"بچے زور زور سے رونے لگا" انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں؟ "
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی میرے پاس بچے کے سوال کا جواب ہے.
ایسے کتنے معصوم ہوں گے جو حسرتوں سے زخمی ہیں

بس ایک کوشش کیجئے اور اپنے ارد گرد ایسے ضرورت مند يتمو، بےسهاراو کو ڈھوڈھيے اور ان کی مدد كجیئے .........

🙏 مدرسوں، مساجد میں سیمنٹ یا اناج کی بوری دینے سے پہلے اپنے آس - پاس کسی غریب کو دیکھ لینا شاید اس کو آٹے کی بوری کی زیادہ ضرورت ہو.

کچھ وقت کے لئے ایک گرب بے سہارا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھئے آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے....
 تصویر یا ویڈیو بھیجنے کہ جگہ یہ میسیج کم از کم ایک یا دو گرپ میں ضرور ڈالئیے... !

* خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے کوشش جاری رکھیں. * 🎋🌹

جناب قنبرامیرالمومنین مولا علیؑ کے غلام

جناب قنبرامیرالمومنین مولا علیؑ کے غلام
💐💐جنہیں تاریخ نے گمنام کرنا چاہا💐💐
جناب قنبر ایران کے علاقے ہمدان کے رہنے والے تھے یا یمن کے قبیلہ ہمدانی کے فرد تھے. پچیس تیس برس کے تھے کہ ایک جنگ میں (غالبا عمری دور میں) گرفتار ہو کر مدینے آئے تو جناب امیر علیہ السلام نے خریدا اور ساتھ لے گئے. مسلمان مجاہدوں کے ہاتھوں لگے زخموں کو مولا نے اپنے دست شفقت سے صاف کیا, مرہم کیا اور دلجوئی کی. مولا کے فیض سے قنبر اسلام لائے اور جب قنبر تندرست ہو گیا تو مولا نے زر خرید قنبر کو آزاد کر کے فرمایا کہ قنبر چاہو تو اہنے وطن چلے جاؤ اور چاہو تو یہیں رہ لو. لیکن قنبر مولا کے قدموں سے لپٹ گئے اور آزاد ہونے کے بعد بھی غلام علی رہنا پسند کیا. آپکا نام قنبر تھا اور مدینے والے انہیں ہمدانی ہونے کے سبب ابو ہمدان کہنے لگے.
سلمان اور قنبر تاریخ کے وہ دو فرد ہیں جنہوں نے اسلام لانے کے بعد اپنا کوئی اور تعارف پسند ہی نہیں کیا.
ساری زندگی قنبر سے عرب اسکا حسب نسب پوچھتے رہے اور قنبر کا ایک ہی جواب رہا کہ:
انا مولیٰ من ضرب بالسیفین و طعن بر محین و صلی قبلتین و بایع البیعتین و ہاجر الھجرتین و لم یکفر باللہ طرفہ عین, انا مولی صالح المؤمنین و وارث النبیین و خیر الوصیین...
میں اسکا غلام ہوں جس نے ایک جنگ دو تلواروں سے لڑا, اور دو ہی نیزوں سے لڑا, اور دونوں قبلتین کی طرف نما ز پڑھی رسول اللہ کی دو دفعہ بیعت کی, جو زندگی بھر آنکھ جھپکنے کے برابر عرصے کے لئے بھی کافر نہ رہا...میں مؤمنین میں سے سب سے زیادہ صالح مرد کا غلام ہوں جو انبیاء کا وارث اور رسول اللہ کے اوصیاء کا سید و سردار ہے.
( تلخیصات ازشرح ابن حدید, مناقب ابن شہر آشوب, الکافی, رجال کشی,)
جناب قنبر علم وتقویٰ کے ساتھ ساتھ نڈراور فصاحت و بلاغت کے انتھائی ماھر تھے کیونکہ مولاعلیؑ کے حقیقی غلام تھے( کیونکہ ایک خط میں علیؑ نے کہا اے قنبر تم معرے ہو) جس کا ثبوت معاویہ جیسےوقت حاکم سے سخت گفتگو ھے جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی موجود ھے
قنبر جنگ صفین میں مولا لے ایک دستے کے علمبردار تھے. روایات میں ہے کہ جب مولا کبھی سوتے تھے تو قنبر تلوار لیکر چپکے سے مولا کے سرہانے پہرہ دینے لگتے. اک دن مولا نے کہا کہ قنبر تم ایسا کیوں کرتے ہو تو قنبر نے کہا کہ اہل زمین سے آپکی حفاظت کرتا ہوں. مولا نے فرمایا کہ قنبر جب تک اللہ کا امر نہ ہو, ان میں سے کوئی میرے پہ غالب نہیں آ سکتا.
( تلخیصات ازشرح ابن حدید, مناقب ابن شہر آشوب, الکافی, رجال کشی,)
19 موکلان دوزخ کے واقعے سہرا بھی جناب قنبر کی عظمت اور جسمانی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ھے
روایت میں آیا ہے کہ " قنبر " کی بے احترامی کی گئی اور وہ بے چین ہوئے اور جواب دینا چاہتے تھے کہ ،،،،،
امام علیؑ نے فرمایا :
" ٹھہرو اے قنبر " گالی دینے والے سے بے اعتنائی کرو اور اس کو اسی کی حالت پر چھوڑ دو تا کہ خدائے متعال کو خوش کرو اور شیطان کو غضبناک اور دشمن کو سزا دو ( کیونکہ دشمن کی اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہے کہ اس کا اعتنا نہ کیا جائے ) قسم اس خدا کی جو دانہ کو شگافتہ کرنے والا اور انسان کو پیدا کرنے والا ہے ، مومن حلم و بردباری سے زیادہ کسی اور چیز سے خدا کو راضی نہیں کرتا ہے ، غصہ کو ضبط کرنے سے زیادہ کسی اور چیز سے شیطان کو ناراض نہیں کرتا اور احمق کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کرنے سے زیادہ اسے کسی چیز سے سزا نہیں دیتا ہے ۔" (بحار الانوار ، ج ۷۱ ، ص ۴۲۴)
تاریخ میں متعدد بار قنبر نے اپنا یہی تعارف کرایا. حجاج بن نا معلوم معروف بہ ابن یوسف ملعون کو پتہ چلا تو جل بھن گیا کہ کوئی اپنا تعارف اس کے سوا کراتا ہی نہیں. حجا ج کمینے نے جناب قنبر کو بلایا اور آتے ہی کہا تم کون ہو...من انت...حجاج نے یہ سوال اسی نیت سے کیا کہ اچانک سوال پر قنبر اپنا تعارف اپنے ن سے کرائے گا کہ انا ابو ہمدان قنبر.....لیکن قنبر نے فورا ہی کہا انا مولی....
یہ سن کر حجاج نے آپ کے قتل کا حکم دے دیا.
( تلخیصات ازشرح ابن حدید, مناقب ابن شہر آشوب, الکافی, رجال کشی,)
بعض روایات میں آپ کی شہادت 13 رمضان بتائی گئی ھے
اور یوں مولا کی وہ بات بھی حق صادق ہوئی کہ قنبر تجھے موت نہیں ناحق زبح کیا جاۓگا
امام زین العابدین کی صحیفہ کاملہ کی دعا میں آپ کی شہادت پردکھ کا اظہاربھی آپ کی عظمت کی نشانی ھے
جناب قنبر کا مزار رویات کے مطابق بغداد ( محلہ یہود و نصاریٰ کے درمیان ایک علاقہ جناب قنبر کے نام سے منصوب) میں ھے
جiناب قنبر کی مولا امام حسینؑ ک کربلا میں نہ ھونے کی مختصر وجہ عھد معاویہ میں سخت قید تھی

فراڈ

4کروڑ= 42لاکھ= 65ہزار
.
.
.
یہ نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشیر تھا‘ اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا‘ وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے ایک‘ ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا تھا، وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لیے، آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا‘ یہ یہودی تاجر کئی ماہ تک اپنی بینک سٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا‘ اسے اپنی سابق بینک سٹیٹمنٹس دکھائیں اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا...
منیجر نے یہودی تاجر کو خبطی سمجھا ‘ اس نے قہقہہ لگایااور دراز سے ایک پاؤنڈ نکالا اور یہودی تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا :
’’ یہ لیجئے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا ‘‘
یہودی تاجر ناراض ہو گیا‘ اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا :
’’میرے پاس دولت کی کمی نہیں‘ میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا چاہتا تھا‘‘
وہ اٹھا اور بینک سے نکل گیا، یہودی تاجر کے جانے کے بعد منیجر کو شکایت کی سنگینی کا اندازا ہوا ‘ اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست نکلی اور یوں یہ نوجوان پکڑا گیا...

یہ لندن کا فراڈ تھا لیکن ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے‘ اس فراڈ کا تعلق پیسےکے سکے سےجڑا ہے، پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948ء کو لانچ کی گئی تھی‘ اس کرنسی میں چھ سکے تھے‘ ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ‘ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی‘ اکنی‘ ادھنا اور ایک پیسے کا سکہ شامل تھے‘ پیسے کے سکے کوپائی کہا جاتا تھا، اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے اور 64پیسوں کے برابر ہوتا تھا...
یہ سکے یکم جنوری 1961ء تک چلتے رہے‘ 1961ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں اشاریہ نظام نافذ کر دیا جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جبکہ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی اور پائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے‘ پچیس پیسے‘ دس پیسے‘ پانچ پیسے اور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے...
یہ سکے جنرل ضیاء الحق کے دور تک چلتے رہے لیکن بعدازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے اور ہم نے پچھلے تیس برسوں سے ایک پیسے‘ پانچ پیسے‘ دس پیسے اور پچیس پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا کیوں...؟
کیونکہ سٹیٹ بینک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہا لیکن آپ حکومت کا کمال دیکھئے حکومت جب بھی پیٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہےتو اس میں روپوں کےساتھ ساتھ پیسےضرور شامل ہوتے ہیں مثلاً آپ پیٹرول کے تازہ ترین اضافے ہی کو لے لیجئے‘ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں5 روپے 92 پیسے اضافہ کیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 62روپے 13پیسے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62روپے 65پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 54روپے 94پیسے ہو گئی ...
اب سوال یہ ہے ملک میں پیسے کا تو سکہ ہی موجود نہیں لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے گاتوکیاپمپ کاکیشیر اسے87پیسے واپس کرے گا...؟ نہیں وہ بالکل نہیں کرے گا چنانچہ اسے لازماً 62کی جگہ 63 روپے ادا کرنا پڑیں گے...
یہ زیادتی کیوں ہے...؟
اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ پاکستان میں روزانہ 3لاکھ 20ہزار بیرل پیٹرول فروخت ہوتا ہے، آپ اگراسےلیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ 5کروڑ 8لاکھ 80ہزار لیٹرز بنتا ہے، آپ اب اندازا کیجئے اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہرلیٹرپر87پیسےاڑاتی ہیں تویہ کتنی رقم بنےگی... ؟

یہ 4کروڑ 42لاکھ 65ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں....
یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پیٹرول نہیں ڈلواتے‘صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پیٹرول خریدتے ہیں اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیسوں کی ہیراپھیری موجود رہتی ہے، مجھے یقین ہے اگر کوئی معاشی ماہر اس ایشو پر تحقیق کرے ‘ وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں‘ مہینوں کو برسوں اور برسوں کو 30سال سے ضرب دے تو یہ اربوں روپےبن جائیں گےگویاہماری سرکاری مشینری 30 برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہے اور حکومت کو معلوم تک نہیں...

ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل ثابت ہوگا...
یہ بھی ہو سکتا ہے اس کرپشن کا والیم ساڑھے چار کروڑ روپے نہ ہولیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جب اسٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کررہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے اور ہم ’’راؤنڈ فگر‘‘ میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں...؟
ہم 62روپے 13پیسوں کو 62روپے کر دیں یا پھر پورے 63روپے کر دیں تا کہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائے، حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کوئی ہیرا پھیری ضرور موجود ہے کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہےہماری بیوروکریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو...!!!

#پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جاری فراڈ

📜 تحریر نامعلوم