AmazonAffiliate

Hack

GADGETS

Life & style

Games

Sports

زندگي ميں کاميابي کے اہم راز

زندگی میں کامیابی کے اہم راز


شايد ہي کوئي انسان ہو جس سے کوئي غلطي سرزد نہ ہوتي ہو ۔ اسلامي تعليمات ميں بھي ذکر ہے کہ چودہ معصومين کے علاوہ تمام انسان ممکن الخطا ہيں اور مختلف شرائط ميں ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف طرح کي غلطيوں کے مرتکب ہو جائيں ۔ بعض غلطيوں کا تعلق انسان اور خدا کے رابطے سے ہوتا ہے اور بعض کا انسان کا دوسرے انسانوں سے۔
انسان کي کاميابي کا ايک راز يہ ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات سے بہترين انداز ميں فائدہ اٹھانا جانتا ہو اور ہر طرح کے حالات ميں کوشش کرے کہ اس وقت اور لمحے کو بہترين انداز ميں استعمال کرے ۔ انسان کو کوشش کرني چاہيے کہ ہميشہ گناہوں اور خطاوں سے بچا رہے ۔ اگر انسان ہر لمحے خود کو فعال رکھے اور اس کا دھيان ہميشہ خدا کي طرف ہو تب شيطان کے ليۓ مشکل ہو جاتا ہے کہ انسان کو بہکاۓ اور يوں انسان گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ کامياب انسانوں ميں يہ بھي خوبي ہوتي ہے کہ ان سے جب کوئي خطا سرزد ہو جاتي ہے تب وہ اپني غلطي کا ازالہ کرنے کي پوري کوشش کرتے ہيں اور نقصان کو کم سے کم لے جانے کي کوشش ميں رہتے ہيں ۔
يہ خوبياں انسان کي مادي اور معنوي کاميابيوں کا وسيلہ بن جاتي ہيں۔ سورہ آل عمران ميں اللہ تعالي فرماتا ہے کہ
«وَ الَّذينَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَ مَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّهُ وَ لَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا وَ هُمْ يَعْلَمُونَ :
ترجمہ: اور جن سے کبھي نازيبا حرکت سرزد ہو جائے ياوہ اپنے آپ پر ظلم کر بيٹھيں تو اسي وقت خدا کو ياد کرتے ہيںاور اپنے گناہوں کي معافي چاہتے ہيں اور اللہ کے سوا گناہوں کابخشنے والا کون ہے اور وہ جان بوجھ کر اپنے کيے پر اصرار نہيں کرتے ہيں [آل عمران:135]
کامياب انسان غلطي کے بعد ، اس کے اثرات کو اسي لمحے زائل کرنے کي کوشش کرتے ہيں اور غلطيوں کو جمع نہيں ہونے ديتے ہيں ۔ انسان کو گمراہ کرنے کي غرض سے شيطان ہميشہ انسان کي اس خوبي کو چھيننے کي کوشش ميں ہوتا ہے ۔ امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ شيطان اس خوبي کو ختم کرنے کي پوري کوشش کرتا ہے ۔ جب آيت کريمہ "وَ الَّذِينَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً ..." نازل ہوئي تب ابليس مکہ کے بلند ترين پہاڑ " تور " پر گيا اور بلند آواز ميں اپنے شاگردوں کو آواز لگائي ۔ اس کے شاگرد وہاں پہنچے اور بلانے کي وجہ پوچھي تو اس نے اس آيت کے بارے ميں ان کو بتايا اور کہاں کہ تم ميں کون اس کا حريف ہے ، تو ايک شاگرد کھڑا ہوا اور بولا کہ ميں اس کا حريف ہوں اور اس کے اثر کو زائل کروں گا۔ ابليس نے اسے کہا کہ تم اس کے حريف نہيں ہو ۔ پھر ايک دوسرا شاگرد کھڑا ہوا اور يہي بولا ، اس کو بھي ايسا ہي جواب ملا ۔ پھر وسواس جناس کھڑا ہوا اور بولا کہ ميں اس کا حريف ہوں تب اس سے پوچھا گيا کہ تم کيسے يہ کام کرو گے ۔ اس سے کہا کہ ميں آدم کي اولاد کو وعدہ دوں گا اور انہيں گناہوں کا پياسا بنا دوں گا تاکہ وہ گناہ سرزد کريں اور جب وہ گناہ کے مرتکب ہو جائيں گے تب انہيں ايسي حالت ميں لے جاوںگا کہ وہ توبہ اور استغفار کرنا بھول جائيں۔ ابليس نے اس سے کہا کہ حقا کہ تم حريف ہو اور اسے يہ ذمہ داري سونپ دي اور کہا کہ تو قيامت تک يہ کام کرتے رہو ۔[ امالى صدوق ص 376 ح 5]
انسان سے جب کوئي گناہ سرزد ہو جاتا ہے تب انسان کو کوشش کرني چاہيۓ کہ وہ توبہ و استغفار کرے تاکہ کردہ گناہوں کي معافي ملے اور مستقبل ميں نفس پر قابو پانے کي طاقت حاصل ہو ۔
دنيا کي محبت انسان کو گناہوں پر مجبور کرتي ہے۔ انسان کو چاہيۓ کہ اپنے کانوں ، زبان اور آنکھوں کي حفاظت کرے اور ان سے کسي بھي طرح کا گناہ سرزد نہ ہونے دے۔ گناہ ہو بھي جاۓ تو اس کي تلافي کرنے ميں دير نہ کرے ۔ انسان جانتا ہے کہ اس سے پہلے بھي يہاں لوگ بستے رہے ہيں۔ پچھلي قوموں کے اب قصّے ہي باقي رہ گۓ ہيں۔ جن لوگوں نے اپنے گناہوں کي معافي مانگي اور گناہوں سے بچے رہے وہ کامياب ہو گۓ اور جو لوگ غفلت ميں رہتے ہوۓ وقت ضائع کرتے رہے ، ان کي زندگي يونہي گزر گئي اور حتي کہ موت کے فرشتے نے ان کي جان لے لي۔
جو لوگ اپنے سرکردہ گناہوں سے غافل رہتے ہيں ، ان کي غلطياں اور گناہ دن بدن زيادہ ہوتے جاتے ہيں ۔ ايک ايسا وقت آ جاتا ہے جب يہ گناہ ايک بڑے بند کي طرح انسان کي کاميابيوں کے سامنے حائل ہو جاتے ہيں ۔ گناہوں کے اثر کو زآئل کرنے کا بھي ايک وقت مقرر ہوتا ہے ۔اس فرصت سے بروقت استفادہ کرنا چاہيے اور جب يہ وقت گزر جاتا ہے تب انسان ہاتھ پر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ [النبأ:40]
ترجمہ : بلکہ يہ (قيامت کا ہولناک عذاب ) ان پر اچانک آئے گا تو انہيں بدحواس کر دے گا پھر انہيں نہ اسے ہٹا نے کي استطاعت ہو گي اور نہ ہي انہيں مہلت دي جائے گي۔
خدا تعالي کي ذات تمام انسانوں کو گناہوں سے بچے رہنے اور توبہ کرنے کي توفيق عطا فرما۔ آمين

ﻭﻩ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺟﻮ ﻣﻮﻻ ﻋﻠﯽ ﻉ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮔﺌﯿﮟ.

ﻭﻩ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺟﻮ ﻣﻮﻻ ﻋﻠﯽ ﻉ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮔﺌﯿﮟ
.
ﯾﻪ ﻭﻩ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮬﯿﮟ ﺟﻮ ﺻﺤﺎﺡ ﺳﺘﻪ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﯽ
ﮬﯿﮟ.
ـ ۱۔ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﺻﺤﻴﻔﺔ ﺍﻟﻤﺆﻣﻦ ﺣﺐّ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺍﺑﻰ
ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﺻﺤﯿﻔﮧ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﺎ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﻣﺤﺒﺖ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ
ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﮯ.
ـ ۲۔ ﻗﻞ ﻟﻤﻦ ﺃﺣﺐّ ﻋﻠﻴﺎً ﻳﺘﻬﻴﺄ ﻟﺪﺧﻮﻝ ﺍﻟﺠﻨﺔ
ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺟﻮ ﻋﻠﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﮮ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ.
ـ ۳۔ ﻛﻔّﻰ ﻭ ﻛﻒّ ﻋﻠﻰٍّ ﻓﻰ ﺍﻟﻌﺪﻝ ﺳﻮﺍﺀ
ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﮨﯿﮟ.
ـ ۴۔ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﻊ ﻋﻠﻰّ ﻭﻋﻠﻰّ ﻣﻊ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ
ﻗﺮﺁﻥ ﻋﻠﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ.
ـ ۵۔ ﻣﻦ ﺍﺫﻯ ﻋﻠﻴﺎً ﻓﻘﺪ ﺍﺫﺍﻧﻰ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﺩﯼ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺫﯾﺖ ﺍﻭﺭ
ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﯼ.
ـ ۶۔ ﺍﻧﺎ ﻭ ﻋﻠﻰّ ﻣﻦ ﺷﺠﺮﺓ ﻭﺍﺣﺪﺓ ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﻣﻦ ﺷﺠﺮ
ﺷﺘّﻰ
ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺷﺠﺮ(ﺩﺭﺧﺖ)ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ
ﺑﺎﻗﯽ ﻟﻮﮒ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ.
ـ ۷ ۔ ﺍﻧﺎ ﺍﻟﻤﻨﺬﺭ ﻭﻋﻠﻰّ ﺍﻟﻬﺎﺩﻯ ﻭ ﺑﻚ ﻳﺎ ﻋﻠﻰّ ﻳﻬﺘﺪﻯ
ﺍﻟﻤﻬﺘﺪﻭﻥ
ﻣﯿﮟ ﮈﺭﺍﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﮨﺎﺩﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮨﯽ
ﺍﮮ ﻋﻠﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ.
ـ ۸۔ ﻋﻠﻰّ ﻣﻨﻰ ﺑﻤﻨﺰﻟﺔ ﺍﻟﺮﺃﺱ ﻣﻦ ﺑﺪﻧﻰ
ﻋﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺑﺪﻥ
ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
ـ ۹۔ ﻋﻠﻰّ ﻓﻰ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻛﺎﻟﻜﻮﺏ ﺍﻟﺼﺒﺤﺔ ﻻﻫﻞ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ
ﻋﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻧﯿﺎ
ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﺻﺒﺢ ﮐﺎ ﺳﺘﺎﺭﮦ.
ـ ۱۰۔ ﻋﻠﻰّ ﺑﺎﺏ ﻣﻦ ﺩﺧﻞ ﻣﻨﻪ ﻛﺎﻥ ﻣﺆﻣﻨﺎ ﻭ ﻣﻦ ﺧﺮﺝ
ﻋﻨﻪ ﻛﺎﻥ ﻛﺎﻓﺮﺍ
ﻋﻠﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻭﮦ
ﻣﻮﻣﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﮐﺎﻓﺮ ﮨﮯ.
ـ ۱۱۔ ﺫﻛﺮ ﻋﻠﻰّ ﻋﺒﺎﺩﺓ
ﺫﮐﺮ ﻋﻠﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮨﮯ.
ـ ۱۲ ۔ ﺍﻟﻨﻈﺮ ﺍﻟﻰ ﻭﺟﻪ ﻋﻠﻰّ ﻋﺒﺎﺩﺓ
ﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮨﮯ.
ـ ۱۳۔ ﻟﻮ ﻟﻢ ﻳﺨﻠﻖ ﻋﻠﻰّ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻔﺎﻃﻤﺔ ﻛﻔﻮ
ﺍﮔﺮ ﻋﻠﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻤﺴﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ.
ـ ۱۴۔ ﻟﻮ ﺍﺟﺘﻤﻊ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻋﻠﻰ ﺣﺐ ﻋﻠﻰّ ﻟﻤﺎ ﺧﻠﻖ ﺍﻟﻠّﻪ
ﺍﻟﻨﺎﺭ ﺍﺑﺪﺍً
ﺍﮔﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﻣﺤﺒﺖ ﻋﻠﯽ ﭘﺮ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ
ﺟﮩﻨﻢ ﮐﻮ ﺧﻠﻖ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ.
ـ ۱۵۔ ﻳﺴﺌﻞ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﻋﻦ ﺍﻻﻗﺮﺍﺭ ﺑﻮﻻﻳﺔ
ﻋﻠﻰّ
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﻻﯾﺖ ﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﮯ
ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﻮﮔﺎ.
ـ ۱۶۔ ﺳﻴﻜﻮﻥ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻯ ﻓﺘﻨﺔ ﻓﺎﺫﺍ ﻛﺎﻥ ﺫﻟﻚ ﻓﺎﻟﺰﻣﻮﺍ
ﻋﻠﻴّﺎ ﻓﺎﻧﻪ ﺍﻟﻔﺎﺭﻕ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﺤﻖ ﻭﺍﻟﺒﺎﻃﻞ
ﻋﻨﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﻓﺘﻨﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﺐ ﺍﯾﺴﯽ
ﺻﻮﺭﺕ ﺣﺎﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻋﻠﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻋﻠﯽ ﺣﻖ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﮨﮯ.
ـ ۱۷۔ ﻋﻠﻰّ ﻣﻨّﻰ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﻨﻪ ﻭﻫﻮ ﻭﻟﻰّ ﻛﻞ ﻣﺆﻣﻦ ﻭ
ﻣﺆﻣﻨﺔ
ﻋﻠﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﯽ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﺮ
ﻣﻮﻣﻦ ﻭﻣﻮﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﻭﻟﯽ ﮨﯿﮟ.
ـ ۱۸۔ ﻋﻠﻰّ ﻭﺷﻴﻌﺘﻪ ﺍﻟﻔﺎﺋﺰﻭﻥ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔ
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ
ﮨﯿﮟ.
ـ ۱۹۔ ﻋﻠﻰّ ﺧﻴﺮ ﺍﻟﺒﺸﺮ ﻣﻦ ﺍﺑﻰ ﻓﻘﺪ ﻛﻔﺮ
ﻋﻠﯽ ﺧﯿﺮ ﺍﻟﺒﺸﺮ(ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺍﻧﺴﺎﻥ)ﮨﯿﮟ ﺟﻮﺍﺱ
ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﮮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻘﻂ ﮐﻔﺮ ﮐﯿﺎ.
ـ ۲۰۔ ﻣﺜﻞ ﻋﻠﻰّ ﻓﻰ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻛﻤﺜﻞ ﻗﻞ ﻫﻮ ﺍﻟﻠّﻪ ﺍﺣﺪ
ﻓﻰ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ
ﻋﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﮦ ﻗﻞ ﮬﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺣﺪ.
ـ ۲۱۔ ﻟﻜﻞ ﻧﺒﻰّ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﺮّ ﻭ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﺮّﻯ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ
ﺍﺑﻰ ﻃﺎﻟﺐ
ﮨﺮ ﻧﺒﯽ ﮐﺎﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺳﺮﺍﺭ(ﺭﺍﺯﺩﺍﻥ)ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺍﺯﺩﺍﻥ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﮨﯿﮟ.
ـ ۲۲۔ ﺍﻧﺎ ﻣﺪﻳﻨﺔ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﻋﻠﻰّ ﺑﺎﺑﻬﺎ ﻭﻣﻦ ﺍﺭﺍﺩ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ
ﻓﻠﻴﺄﺗﻬﺎ ﻣﻦ ﺑﺎﺑﻬﺎ
ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﺍﺱ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﭘﺲ
ﺟﻮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ.
ـ ۲۳۔ ﺍﻥّ ﺍﻟﻠﻪ ﺟﻌﻞ ﺫﺭﻳّﺔ ﻛﻞ ﻧﺒﻰ ﻓﻰ ﺻﻠﺒﻪ ﻭﺟﻌﻞ
ﺫﺭّﻳﺘﻰ ﻓﻰ ﺻﻠﺐ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺍﺑﻴﻄﺎﻟﺐ
ﺑﯿﺸﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﺻﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺫﺭﯾﺖ ﮐﻮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺭﯾﺖ ﮐﻮ ﺻﻠﺐ ﻋﻠﯽ
ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭﺩﯾﺎﮨﮯ.
ـ ۲۴۔ ﻗﺴّﻢ ﺍﻟﺤﻜﻤﺔ ﻋﺸﺮﺓ ﺍﺟﺰﺍﺀ ﻓﺎﻋﻄﻰ ﻋﻠﻰّ
ﺗﺴﻌﺔ ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﺟﺰﺀً ﻭﺍﺣﺪﺍ
ﺣﮑﻤﺖ ﮐﮯ ﺩﺱ ﺍﺟﺰﺍﺀ ﮨﯿﮟ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ ﻧﻮ ﺟﺰ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﺰ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ.
ـ ۲۵۔ ﻟﻜﻞ ﻧﺒﻰّ ﻭﻭﺻﻰّ ﻭﺍﺭﺙ ﻭﺍﻥ ﻋﻠﻴّﺎ ﻭﺻﻴّﻰ ﻭ
ﻭﺍﺭﺛﻰ
ﮨﺮﻧﺒﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﺻﯽ ﻭ ﻭﺍﺭﺙ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﺭﺙ ﻭ
ﻭﻟﯽ ﻋﻠﯽ ﮨﯿﮟ.
ـ ۲۶ ۔ ﺍﻧﺎ ﻭﻋﻠﻰّ ﻫﺬﺍ ﺣُﺠّﺔ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﺧﻠﻘﻪ
ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ
ﭘﺮ ﺣﺠﺖ ﮨﯿﮟ.
ـ ۲۷۔ ﺳﺌﻞ ﺍﻟﻨﺒﻰ:ﻣﻦ ﻋﻨﺪﻩ ﻋﻠﻢ ﺍﻟﻜﺘﺎﺏ؟ ﻗﺎﻝ:ﺍﻧﻤﺎ
ﺫﻟﻚ ﻋﻠﻰّ
ﻧﺒﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻣﻦ ﻋﻨﺪﮦ ﻋﻠﻢ ﺍﻟﮑﺘﺎﺏ ﮐﺲ
ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻋﻠﻢ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ ؟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺑﯿﺸﮏ ﻭﮦ
ﻋﻠﯽ ﮨﯿﮟ.
ـ ۲۸۔ ﺣﺐّ ﻋﻠﻰّ ﻳﺄ ﻛﻞ ﺍﻟﺬﻧﻮﺏ ﻛﻤﺎ ﺗﺄﻛﻞ ﺍﻟﻨﺎﺭ ﺍﻟﺤﻄﺐ
ﺣﺐ ﻋﻠﯽ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮭﺎ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﺁﮒ ﺧﺸﮏ ﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﮐﻮ.
ـ ۲۹۔ ﻣﺜﻞ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻰ ﻛﻤﺜﻞ ﺳﻔﻴﻨﺔ ﻧﻮﺡ، ﻣﻦ ﺭﻛﺒﻬﺎ
ﻧﺠﻰ ﻭﻣﻦ ﺗﺨﻠﻒ ﻋﻨﻬﺎ ﻏﺮﻕ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﻔﯿﻨﮧ ﻧﻮﺡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ،
ﺟﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﻮﮌﺍ ﮨﻼﮎ ﮨﻮﮔﯿﺎ.
ـ ۳۰۔ ﻣﺜﻞ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻰ ﻛﻤﺜﻞ ﺑﺎﺏ ﺣﻄّﺔ، ﻣﻦ ﺩﺧﻞ
ﻏﻔﺮ ﻟﻪ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﺎﺏ ﺣﻄۃ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺑﺨﺸﺎ ﮔﯿﺎ.
ـ ۳۱۔ ﺇﻧّﺎ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺖ ﺍﺧﺘﺎﺭ ﺍﻟﻠّﻪ ﻟﻨﺎ ﺍﻵﺧﺮﺓ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ
ﮨﻢ ﺍﮬﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﯿﻠﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ
ﺁﺧﺮﺕ ﮐﻮ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ.
ـ ۳۲۔ ﺳﺌﻠﺖ ﺭﺑﻰ ﺍﻥ ﻻﻳﺪﺧﻞ ﺍﺣﺪﺍ ﻣﻦ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻰ ﺍﻟﻨﺎﺭ
ﻓﺎﻋﻄﺎﻧﻴﻬﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﮬﻞ ﺑﯿﺖ
ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺟﮭﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯽ.
ـ ۳۳۔ ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻥّ ﻫﺆﻻﺀ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻰ ﻭﻟﺤﻤﺘﻰ، ﻳﺆﻟﻤﻨﻰ
ﻣﺎ ﻳﺆﻟﻤﻬﻢ
ﺍﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﮬﻞ ﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻮﺷﺖ
ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻧﺞ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﻧﺞ
ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ.
ـ ۳۴۔ ﺣﺐّ ﺁﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻳﻮﻣﺎ ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩﺓ ﺳﻨﺔ
ﺁﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ
ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ
ـ۳۵ ۔ ﺣﺐّ ﻋﻠﻰّ ﺑﺮﺍﺀﺓ ﻣﻦ ﺍﻟﻨﺎﺭ
ﻋﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺁﮒ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﺩﻻﺗﯽ ﮨﮯ.
۳۶۔ ﻣﻦ ﻣﺎﺕ ﻓﻰ ﺣﺐ ﺁﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻓﻘﺪ ﻣﺎﺕ ﺷﻬﻴﺪﺍً ﻭ
ﻣﻦ ﻣﺎﺕ ﻓﻰ ﺑﻐﺾ ﺁﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺎﺕ ﻣﻴﺘﺔ ﺟﺎﻫﻠﻴﺔ
ﺟﻮﺷﺨﺺ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮬﻞ ﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﻭﮦ ﺷﮩﺎﺩﺕ
ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﻣﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺑﻐﺾ ﺍﮬﻞ ﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﻭﮦ
ﺟﺎﮬﻠﯿﺖ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﻣﺮﺍ.
ـ۳۷۔ ﺍﻟﻠﻬﻢ ﻻﺗﻤﺘﻨﻰ ﺣﺘﻰ ﺗﺮﻳﻨﻰ ﻭﺟﻪ ﻋﻠﻰّ
ﺍﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮧ ﻟﮯ.
ـ ۳۸۔ ﻣﻦ ﺫﻛﺮ ﻓﻀﻴﻠﺔ ﻣﻦ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﻋﻠﻰّ(ﻉ)ﻣﻘﺮﺍً ﺑﻬﺎ
ﻏﻔﺮﺍﻟﻠّﻪ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﻣﻦ ﺫﻧﺒﻪ ﻭﻣﺎ ﺗﺄﺧﺮ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﻋﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﮐﻮﺍﻗﺮﺍﺭ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﮔﻨﺎﮦ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ.
ـ ۳۹۔ ﻟﻮ ﺃﻥّ ﺍﻟﺮﻳﺎﺽ ﺃﻗﻼﻡ ﻭﺍﻟﺒﺤﺮ ﻣﺪﺍﺩ ﻭﺍﻟﺠﻦ
ﺣُﺴّﺎﺏ ﻭﺍﻻﻧﺲ ﻛﺘّﺎﺏ ﻣﺎ ﺍﺣﺼﻮﺍ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﻋﻠﻰّ ﺑﻦ
ﺍﺑﻴﻄﺎﻟﺐ
ﺍﮔﺮ ﺩﺭﺧﺖ ﻗﻠﻤﯿﮟ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﺑﻦ
ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﻭ ﺍﻧﺲ ﻣﻠﮑﺮ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ ﺷﻤﺎﺭ
ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺷﻤﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
۔ ۴۰۔ ﺿﺮﺑﺖ ﻋﻠﯽ ﻓﯽ ﯾﻮﻡ ﺍﻟﺨﻨﺪﻕ ﺍﻓﻀﻞ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩۃ
ﺍﻟﺜﻘﻠﯿﻦ
ﺧﻨﺪﻕ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻋﻠﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺿﺮﺏ ﺛﻘﻠﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ
ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ۔

واقعہ غدیر کیا ھے؟

واقعہ غدیر کیا ھے؟
< یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ >[1]
”اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔
اھل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی(تمام شیعہ مشھور کتابوں میں) بیان ھوا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔
ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ھے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوھریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ھوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ھے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ ان میں سے بعض روایات متعدد طریقوں سے نقل ھوئی ھیں، منجملہ:
حدیث ابوسعید خدری ۱۱طریقوں سے۔
حدیث ابن عباس بھی ۱۱ طریقوں سے۔
اور حدیث براء بن عازب تین طریقوں سے نقل ھوئی ھے۔
جن افراد نے ان احادیث کو(مختصر یا تفصیلی طور پر ) اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے ان کے اسما درج ذیل ھیں:
حافظ ابو نعیم اصفھانی نے اپنی کتاب ”ما نُزِّل من القرآن فی عليّ“ میں(الخصائص سے نقل کیا ھے، صفحہ۲۹)
ابو الحسن واحدی نیشاپوری ”اسباب النزول“ صفحہ۱۵۰۔
ابن عساکر شافعی( الدر المنثور سے نقل کیا ھے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸)
فخر الدین رازی نے اپنی ”تفسیر کبیر“، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶۔
ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“(خطی)
ابن صباغ مالکی نے ”فصول المھمہ“ صفحہ ۲۷۔
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸۔
قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“، جلد سوم صفحہ ۵۷۔
شھاب الدین آلوسی شافعی نے ”روح المعانی“، جلد ۶، صفحہ ۱۷۲۔
شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ”ینابیع المودة“ صفحہ ۱۲۰۔
بد ر الدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری“، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴۔
شیخ محمد عبدہ مصری ”تفسیر المنار“، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳۔
حافظ بن مردویہ(متوفی ۴۱۸ھ)(الدر المنثور سیوطی سے نقل کیا ھے) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگرعلمانے اس حدیث کو بیان کیا ھے۔
البتہ اس بات کو نھیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے مذکورہ علمانے حالانکہ شان نزول کی روایت کو نقل کیا ھے لیکن بعض وجوھات کی بنا پر(جیسا کہ بعد میں اشارہ ھوگا) سرسری طور سے گزر گئے ھیں یا ان پر تنقید کی ھے، ھم ان کے بارے میں آئندہ بحث میں مکمل طور پر تحقیق و تنقیدکریں گے۔(انشاء اللہ )
واقعہٴ غدیر
مذکورہ بحث سے یہ بات اجمالاً معلوم ھوجاتی ھے کہ یہ آیہٴ شریفہ بے شمار شواھد کی بنا پر امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے، اور اس سلسلہ میں(شیعہ کتابوں کے علاوہ) خود اھل سنت کی مشھور کتابوں میں وارد ھونے والی روایات اتنی زیادہ ھیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نھیں کرسکتا۔
ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ھیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ھوا ھے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ھوئی کہ جب پیغمبراکرم(ص)نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گزشتہ روایات کی تعداد سے کھیں زیادہ ھے، یھاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی(رہ) نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ھے، اسی طرح ۸۴ تابعین اور مشھور و معروف۳۶۰ علماو دانشوروں سے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔
اگر کوئی خالی الذھن انسان ان اسناد و مدارک پر ایک نظر ڈالے تو اس کو یقین ھوجائے گا کہ حدیث غدیر یقینا متواتر احادیث میں سے ھے بلکہ متواتر احادیث کا بہترین مصداق ھے، اور حقیقت یہ ھے کہ اگر کوئی شخص ان احادیث کے تواتر میں شک کرے تو پھر اس کی نظر میں کوئی بھی حدیث متواتر نھیں ھوسکتی۔
ھم یھاں اس حدیث کے بارے میں بحث مفصل طور پر بحث نھیں کرسکتے، حدیث کی سند اور آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ھیں، اور اب حدیث کے معنی کی بحث کرتے ھیں، جو حضرات حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ھیں وہ درج ذیل کتابوں میں رجوع کرسکتے ھیں:
۱۔ عظیم الشان کتاب الغدیر جلد اول تالیف، علامہ امینی علیہ الرحمہ۔
۲۔ احقاق الحق، تالیف، علامہ بزرگوار قاضی نور اللہ شوستری، مفصل شرح کے ساتھ آیت اللہ نجفی، دوسری جلد، تیسری جلد، چودھویں جلد، اور بیسوی جلد۔
۳۔ المراجعات، تا لیف، مرحوم سید شرف الدین عاملی۔
۴۔ عبقات الانوار، تالیف عالم بزرگوار میر سید حامد حسین ھندی(لکھنوی)۔
۵۔ دلائل الصدق، جلد دوم، تالیف، عالم بزرگوار مرحوم مظفر۔
حدیث غدیر کا مضمون
ھم یھاں تمام روایات کے پیش نظر واقعہ غدیر کا خلاصہ بیان کرتے ھیں، (البتہ یہ عرض کردیا جائے کہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ھوا ھے، بعض میں واقعہ کے ایک پھلو اور بعض میں کسی دوسرے پھلو کی طرف اشارہ ھوا ھے، چنا نچہ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ھے:)
پیغمبراکرم(ص)کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ھو سکتے تھے وہ پیغمبراکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر ھوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی۔ اصحاب پیغمبر کی کثیر تعداد آنحضرت(ص)کے سا تھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرھے تھے۔[2]
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج درودیوار اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنارھا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آھستہ آھستہ ”جحفہ“ کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔
در اصل یھاں ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف، تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاںآخری او راس عظیم سفر کااھم ترین مقصدانجام دیاجانا تھا اور پیغمبر مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اھم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچا نا چا ہتے تھے۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھھر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رھے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پھنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔
اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نھیں آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ھوئے تھے، انھوں نے ان برھنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ھوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رھی تھی، بھرحال ظھر کی نمازاداکی گئی۔
مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کےسب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ھوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ(ص)سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چھرہ دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا، پیغمبر اس پر تشریف لے گئے، پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے جا نے والاھوں، میں بھی جوابدہ ھوںاورتم لو گ بھی جوابدہ ھو، تم میرے بارے میں کیا کہتے ھو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کھا:
”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“
”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ھدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی، خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت، میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ھونے کی گواھی نھیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رھنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو! کیا تم میری آواز سن رھے ھو؟
انھوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ھوگیا، سوائے ھوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا ھوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ(ص)وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ھیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ھو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت(ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ بھشت میں مجھ سے آملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے(اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رھنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک ھو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑارھے ھیں گویا کسی کو تلاش کررھے ھیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ھوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم۔“
اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر ھوں اورمیں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ھوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ھے)۔
اس کے بعد فرمایا:
”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“۔
”یعنی جس کا میں مولاھوں علی(ع) بھی اس کے مولا اوررھبر ھيں“۔
پیغمبراکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:
”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاھدُ الغائبُ“
” تمام حاضرین آگاہ ھوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پھنچائیں جو یھاں پر اس وقت موجود نھیں ھیں “۔
پیغمبر کا خطبہ ختم ھوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ھوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:
<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی>[3]
”آج کے دن ھم نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبراکرم(ص)نے فرمایا:
”اللّٰہُ اٴکبرُ اللّٰہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِي وَالوِلاٰیَة لِعَليّ مِنْ بَعْدِي“
”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش ھوا۔“
پیغمبر کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ھوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی(ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انھوں نے کھا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولاي و مولاکُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
”مبارک ھو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب(ع) کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر ھوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کھا:بخدا یہ عھد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا۔
اس موقع پر مشھور شاعر حسان بن ثابت نے پیغمبراکرم(ص)سے اجازت طلب کی کہ اس موقع کی مناسبت سے کچھ شعر کھوں، چنا نچہ انھو ں نے یہ مشھور و معروف اشعار پڑھے:
یَنادِیْھِمْ یَومَ الغَدِیرِ نَبِیُّھُمْ بِخُمٍّ وَاٴسْمِعْ بِالرَّسُولِ مُنَادِیاً
فَقَالَ فَمَنْ مَولٰاکُمْ وَنَبِیُّکُمْ؟ فَقَالُوا وَلَمْ یَبْدُو ھُناکَ التَّعامِیا
إلٰھکَ مَولانَا وَاٴنتَ نَبِیُّنَا َولَمْ تَلْقِ مِنَّا فِي الوَلایَةِ عَاصِیاً
فَقَالَ لَہُ قُمْ یَا عَليّ فَإنَّنِی رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِي إمَاماً وَ ھَادیاً
فَمَنْ کُنْتُ مَولاہُ فَھَذَا وَلِیُّہُ فَکُونُوا لَہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیاً
ھَنَاکَ دَعَا اَللّٰھُمَّ وَالِ وَلِیَّہُ وَکُنْ لِلَّذِي لَہُ اٴتْبَاعَ عَلِیًّا مُعَادِیاً[4]
یعنی: ”پیغمبراکرم(ص)روز غدیر خم یہ اعلان کررھے تھے اور واقعاً کس قدر عظیم اعلان تھا۔
فرمایا: تمھارامولاا ور نبی کون ھے؟ تو مسلمانوں نے صاف صاف کھا:
”خداوندعالم ھمارا مولا ھے اور ھمارے نبی ھیں، ھم آپ کی ولایت کے حکم کی مخالفت نھیں کریں گے۔
اس وقت پیغمبراکرم(ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی اٹھو، کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد امام اور ھادی مقرر کیا ھے۔
اس کے بعد فرمایا: جس کامیں مولا و آقا ھوں اس کے یہ علی﷼ مولا اور رھبر ھیں، لہٰذا تم سچے دل سے اس کی اطاعت و پیروی کرنا۔
اس وقت پیغمبراکرم(ص)نے فرمایا: پالنے والے! اس کے دوست کو دوست رکھ! اور اس کے دشمن کو دشمن۔
قا ر ئین کرام !یہ تھا اھل سنت اور شیعہ علماکی کتابوں میں بیان ھونے والی مشھور و معروف حدیث غدیر کا خلاصہ۔
آیہ بلغ کے سلسلہ میں ایک نئی تحقیق
اگر ھم مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ھونے والی احادیث اور واقعہ غدیر سے متعلق تمام روایات سے قطع نظر کریں اور صرف اور صرف خود آیہٴ بلغ اور اس کے بعد والی آیتوں پر غور کریں تو ان آیات سے امامت اور پیغمبراکرم (ص)کی خلافت کا مسئلہ واضح و روشن ھوجائے گا۔
کیونکہ مذکورہ آیت میں بیان ھونے والے مختلف الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ اس مسئلہ کی تین اھم خصوصیت ھیں:
۱۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کی ایک خاص اھمیت ھے، کیونکہ پیغمبراکرم(ص)کو حکم دیا گیا ھے کہ اس پیغام کو پھنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو گویا اپنے پروردگار کی رسالت کو نھیں پھنچایا! دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ ولایت کا مسئلہ نبوت کی طرح تھا، کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو پیغمبراکرم کی رسالت ناتمام رہ جاتی ھے:<وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ>
واضح رھے کہ اس سے مراد یہ نھیں ھے کہ یہ خدا کا کوئی معمولی حکم تھا، اور اگرخدا کے کسی حکم کونہ پھنچایا جائے تو رسالت خطرہ میں پڑجاتی ھے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ھے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے، حالانکہ آیت کا ظاھر یہ ھے کہ یہ مسئلہ ایک خاص اھمیت کا حامل ھے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ھے۔
۲۔ یہ مسئلہ اسلامی تعلیمات جیسے نماز، روزہ، حج، جھاد اور زکوٰة وغیرہ سے متعلق نھیں تھا کیونکہ یہ آیت سورہ مائدہ کی ھے، اور ھم جانتے ھیں کہ یہ سورہ پیغمبراکرم(ص)پر سب سے آخر میں نازل ھوا ھے،(یا آخری سوروں میں سے ھے) یعنی پیغمبراکرم(ص)کی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں یہ سورہ نازل ھوا ھے جس وقت اسلام کے تمام اھم ارکان بیان ھوچکے تھے۔[5]
۳۔ آیت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ھیں کہ یہ مسئلہ ایک ایسا عظیم تھاجس کے مقابلہ میں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، یھاں تک کہ پیغمبراکرم(ص)کی جان کو بھی خطرہ تھا، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنی خاص حمایت کا اعلان کرتے ھوئے فرمایا:< وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ> ”اور خداوندعالم تم کولوگوں کے(احتمالی) خطرے سے محفوظ رکھے گا“۔
آیت کے آخر میں اس بات کی تاکید کی گئی ھے: ”خداوندعالم کافروں کی ھدایت نھیں فرماتا“< إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ >
آیت کا یہ حصہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص)کے خلاف کوئی منفی قدم اٹھانے والے تھے۔
ھماری مذکورہ باتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ھوجاتی ھے کہ اس آیت کا مقصد پیغمبراکر(ص)کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ اور کچھ نھیں تھا۔
جی ھاں پیغمبراکرم(ص)کی آخری عمر میں صرف یھی چیز مورد بحث واقع ھوسکتی ھے نہ کہ اسلام کے دوسرے ارکان، کیونکہ دوسرے ارکان تو اس وقت تک بیان ھوچکے تھے، صرف یھی مسئلہ رسالت کے ھم وزن ھوسکتا ھے، اور اسی مسئلہ پر بہت سی مخالفت ھوسکتی تھی اور اسی خلافت کے مسئلہ میں پیغمبراکرم(ص)کی جان کو خطرہ ھوسکتا تھا۔
اگر مذکورہ آیت کے لئے ولایت، امامت اور خلافت کے علاوہ کوئی دوسری تفسیر کی جائے تو وہ آیت سے ھم آھنگ نہ ھوگی۔
آپ حضرات ان تمام مفسرین کی باتوں کو دیکھیں جنھوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ کر دوسری تاویلیں کی ھیں، ان کی تفسیر آیت سے بےگانہ دکھائی دیتی ھیں، حقیقت تو یہ ھے کہ یہ لوگ آیت کی تفسیر نھیں کرپائے ھیں۔
توضیحات
۱۔ حدیث غدیر میں مولی کے معنی
جیسا کہ معلوم ھو چکا ھے کہ حدیث غدیر ”فمن کنت مولاہ فعليٌّ مولاہ“ تمام شیعہ اور سنی کتا بوں میں نقل ھو ئی ھے: اس سے بہت سے حقائق روشن ھوجاتے ھیں۔
اگرچہ بہت سے اھل سنت موٴلفین نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ھے کہ ”مولی“ کے معنی ”ناصر یا دوست “ کے ھیں، کیونکہ مولی کے مشھور معنی میں سے یہ بھی ھیں، ھم بھی اس بات کو مانتے ھیں کہ ”مولیٰ“کے معنی دوست اور ناصر ومددگار کے ھیں، لیکن یھاں پر بہت سے قرائن و شواھدھیں جن سے معلوم ھوتا ھے مذکورہ حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی ”ولی، سرپرست اور رھبر“ کے ھیں، ھم یھاں پر ان قرائن و شواھد کو مختصر طور پر بیان کرتے ھیں:
۱۔ حضرت علی علیہ السلام سے تمام مومنین کی دوستی کوئی مخفی اور پیچیدہ چیز نہ تھی کہ جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ھوتی، اور اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس بے آب و گیاہ اور جلتے ھوئے بیابان میں اس عظیم قافلہ کو دوپھر کی دھوپ میں روک کرایک طویل و مفصل خطبہ دیا جائے اور سب لوگوں سے اس دوستی کا اقرارلیا جائے۔
قرآن مجید نے پھلے ھی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان فردیا ھے: < إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ>[6]”مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ھیں“
ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتاھے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْض[7] ”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ھیں“۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی اسلام کے سب سے واضح مسائل میں سے ھے جو پیغمبراکرم(ص)کے زمانہ سے چلی آرھی ھے، اور خود آنحضرت(ص)نے اس بات کو بارھا بیان فرمایا اوراس سلسلہ میں تاکید فرمائی ھے، اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نھیں تھا جس سے آیت کا لب و لہجہ اس قدر شدید ھوجاتا، اور پیغمبراکرم(ص)اس راز کے فاش ھونے سے کوئی خطرہ محسوس کرتے۔(غور کیجئے)
۲۔ ”اٴلَسْتُ اٴولیٰ بِکُمْ مِنْ اٴنفُسِکم“(کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفسوں سے زیادہ اولی اور سزاور نھیں ھوں؟) حدیث کا یہ جملہ بہت سی کتابوں میں بیان ھوا ھے جو ایک عام دوستی کو بیان کرنے کے لئے بے معنی ھے، بلکہ اس جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ جس طرح مجھے تم پر اولویت و اختیار حاصل ھے اور جس طرح میں تمھارا رھبر اور سرپرست ھوں بالکل اس طرح علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ھے، اورھمارے عرض کئے ھوئے اس جملے کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی انصاف اور حقیقت سے دور ھيں، خصوصاً ”من انفسکم“ کے پیش نظر یعنی میں تمھاری نسبت تم سے اولیٰ ھوں۔
۳۔ اس تاریخی واقعہ پرتمام لوگوں کی طرف سے خصوصاً حضرت ”عمر “ اور حضرت ”ابوبکر“ کا امام علی علیہ السلام کی خد مت میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ یہ مسئلہ صرف خلافت کا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے تبریک و تھنیت پیش کی جارھی تھی، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام سے دوستی کا مسئلہ تو سب کو معلوم تھا اس کے لئے تبریک کی کیا ضرورت تھی؟! !
مسند احمد میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبراکرم(ص)کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:
”ھنئیاً یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“[8]
”مبارک ھو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے! آج سے تم ھر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے“۔
علامہ فخر الدین رازی نے < یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ >کے ذیل میں تحریر کیا ھے کہ حضرت عمر نے کھا: ”ھنئیاً یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“جس سے معلوم ھو تا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کوخود حضرت عمر اپنااور ھر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے۔
تاریخ بغداد میں روایت کے الفاظ یہ ھیں: ”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولاي و مولاکُلّ مسلم“[9] ”اے ابو طالب کے بیٹے مبارک ھو مبارک! آپ آج سے میرے اور ھر مسلمان کے مولا ھوگئے“۔
فیض القدیر اور صواعق محرقہ دونوں کتابوں میں نقل ھوا ھے کہ حضرت ابوبکر اور عمر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کھا: ”وَاٴَمسیتَ یابن اٴبي طالبٍ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
یہ بات واضح ھے کہ ایک عام دوستی تو سبھی مومنین کے درمیان پائی جاتی تھی، تو پھر اتنا اہتمام کیسا؟! لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ اس وقت صحیح ھے جب مولی کے معنی صرف اور صرف حا کم اور خلیفہ ھوں۔
۴۔ حسان بن ثابت کے مذکورہ اشعار بھی اس بات پر بہترین گواہ ھیں کہ جن میں بلند مضامین اور واضح الفاظ میں خلافت کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ھے، جن کی بنا پر مسئلہ کافی واضح ھے(آپ حضرات ان اشعار کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھیں)
۲۔ قرآن کی آیات واقعہ غدیر کی تائید کرتی ھیں
بہت سے مفسرین اورراویوں نے سورہ معارج کی ابتدائی چند آیات: <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ۔لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ۔مِنْ اللهِ ذِی الْمَعَارِجِ >(ایک سائل نے واقع ھونے والے عذاب کا سوال کیا جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نھیں ھے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ھے، )کی شان نزول کو بیان کیا ھے جس کا خلاصہ یہ ھے:
”پیغمبراکرم(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم میں خلافت پر منصوب کیا، اوران کے بارے میں فرمایا: ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“۔ تھوڑی ھی دیر میں یہ خبر عام ھوگئی، نعمان بن حارث فھری [10](جو کہ منافقوں میں سے تھا ) پیغمبراکرم(ص)کی خدمت میں حاضر ھوکر عرض کرتا ھے: آپ نے ھمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواھی دیں ھم نے گواھی دی، لیکن آپ اس پر بھی راضی نہ ھوئے یھاں تک کہ آپ نے(حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے کھا) اس جوان کو اپنی جانشینی پر منصوب کردیا اور کھا: ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“۔کیا یہ کام اپنی طرف سے کیا ھے یا خدا کی طرف سے؟ پیغمبراکرم(ص)نے فرمایا: اس خداکی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے، یہ کام میں نے خدا کی طرف سے انجام دیا ھے“۔
نعمان بن حارث نے اپنا منھ پھیر لیا اور کھا: خداوندا! اگر یہ کام حق ھے اور تیری طرف سے ھے تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا!۔
اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اس کے سر پر لگا، جس سے وہ وھیں ھلاک ھوگیا، اس موقع پر آیہٴ <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع> نازل ھوئی۔
(قارئین کرام!)مذکورہ روایت کی طرح مجمع البیان میں بھی یہ روایت ابو القاسم حسکانی سے نقل ھوئی ھے[11]، اور اسی مضمون کی روایت بہت سے اھل سنت مفسرین اور راویان حدیث نے مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کی ھے، منجملہ: قرطبی نے اپنی مشھور تفسیرمیں[12] آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں[13]، اور ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں۔[14]
علامہ امینی علیہ الرحمہ نے کتاب الغدیر میں تیس علمااھل سنت سے(معہ منابع ) اس روایت کو نقل کیا ھے، جن میں سے: سیرہٴ حلبی، فرائد السمطین حموینی، درر السمطین شیخ محمد زرندی، السراج المنیرشمس الدین شافعی، شرح جامع الصغیر سیوطی، تفسیر غریب القرآن حافظ ابوعبید ھروی، اور تفسیر شفاء الصدور ابو بکر نقّاش موصلی، وغیرہ بھی ھیں۔[15]
[1] سورہ مائدہ ، آیت ۶۷۔
[2] پیغمبر کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک ۹۰ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ھے۔
[3] سورہٴ مائدہ ، آیت ۳۔
[4] ان اشعار کو اھل سنت کے بڑے بڑے علمانے نقل کیا ھے ، جن میں سے حافظ ”ابونعیم اصفھانی،حافظ ”ابو سعید سجستانی“، ”خوارزمی مالکی“، حافظ ”ابو عبداللہ مرزبانی“،”گنجی شافعی“، ”جلالالدین سیوطی“، سبط بن جوزی“ اور ”صدرالدین حموی“ کا نام لیا جاسکتا ھے۔
[5] فخر رازی اس آیت کے ذیل میں تحریر کرتے ھیں: بہت سے علما(محدثین اور مورخین) نے لکھا ھے کہ اس آیت کے نازل ھونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص)صرف ۸۱ دن یا ۸۲ دن زندہ رھے، (تفسیر کبیر ، جلد ۱۱، صفحہ ۱۳۹) ، تفسیرالمنار اور بعض دیگر کتابوں میں یہ بھی تحریر ھے کہ پورا سورہ مائدہ حجةالوداع کے موقع پر نازل ھوا ھے، (المنار ، جلد ۶ صفحہ ۱۱۶)البتہ بعض موٴلفین نے مذکورہ دنوں کی تعداد کم لکھی ھے۔
[6] سورہٴ حجرات ، آیت ۱۰۔
[7] سورہٴ توبہ ، آیت ۷۱۔
[8] مسند احمد ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۱ ،(فضائلالخمسہ ، جلد اول، صفحہ ۴۳۲ کی نقل کے مطابق )
[9] تاریخ بغداد ، جلد ۷، صفحہ ۲۹۰۔
[10] بعض روایات میں ”حارث بن نعمان“ اور بعض روایات میں ”نضر بن حارث“ آیا ھے۔
[11] مجمعالبیان ، جلد ۹و۱۰، صفحہ ۳۵۲۔
[12] تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، صفحہ ۶۷۵۷۔
[13] تفسیرالوسی، ، جلد ۲۹، صفحہ ۵۲۔
[14] نور ا لابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۱ کے نقل کے مطابق۔
[15] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۱۔

ايمان افروز واقعة ... ضرور پڑھیں

ايمان افروز واقعة ... ضرور پڑھیں
ﺳﻌﯿﺪ ﺟﺪﮦ ﺍﺋﯿﺮ ﭘﻮﺭﭦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮬﻮﺍ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻼﺋﯿﭧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮬﻢ ﻭﻃﻦ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺼﺮﯼ ﺣﺎﺟﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮬﻮﺍ ﺗﮭﺎ ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﺁﺳﻮﺩﮔﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺍﻭﺕ ﭼﮭﻠﮏ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺞ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﺳﮏ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﺎﺟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ ، ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺣﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﯾﺎ ،، ﻣﯿﮟ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﺳﻮﺍﮞ ﺣﺞ ﮬﮯ ، ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﻓﻀﻞ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﮬﺮ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻼ ﮬﮯ ،، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭﺍﻧﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮔﻮﯾﺎ ﺟﻮﺍﺑﺎً ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮬﻮ ،، ﺳﻌﯿﺪ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺞ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮬﮯ ﻃﻮﯾﻞ ﺍﻭﺭﮔﻨﺠﻠﮏ ﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﺎ ،،، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﮬﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﻧﺘﻄﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮬﮯ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮬﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﺎﮬﺮ ﺳﮯ ﺑﯿﺲ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﮬﮯ ، ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺳﺮ ﮬﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﻓﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺣﺎﺟﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﮬﻨﺴﺘﮯ ﮬﻮﺍ ﮐﮩﺎ ،،
ﺳﻌﯿﺪ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮔﯿﺎ ﮔﻮﯾﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮬﺎ ﮬﻮ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﮮ ،، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﯾﭧ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻓﺰﯾﻮﺗﮭﺮﺍﭘﺴﭧ ﮬﻮﮞ ،ﺳﻌﯿﺪ ﻧﮯ ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ،،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 30 ﺳﺎﻝ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺭﻗﻢ ﮐﭩﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺣﺞ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﮬﮯ ، ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﻮﺭﮮ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﻓﺎﺋﻨﺎﻧﺲ ﮈﯾﭙﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﮑﻼ ﮬﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ،ﺟﺲ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﯾﮑﺴﯿﮉﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ،ﻣﮕﺮ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭼﮫ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﺘﮭﮏ ﻣﺤﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺎﺭ ﻭ ﺷﻔﻘﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ 50 ﻓﯿﺼﺪ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻣﯿﺪ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﭼﮫ ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻣﮑﻤﻞ ﺻﺤﺘﯿﺎﺏ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ،، ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺠﮭﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﺎ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ ، ،، ﺷﺎﯾﺪ ﭘﮭﺮ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﻧﮧ ﮬﻮ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﭼﮭﻨﺒﺎ ﮬﻮﺍ - ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﺝ ﺳﮯ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﻧﮧ ﮬﻮ ،، ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﻋﻼﺝ ﺳﮯ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﯿﮟ ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮ ﮬﯽ ﺩﯾﺎ ،، ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﺎﭖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻻ ﮬﮯ ،ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﺭﻭﺍﮞ ﺭﻭﺍﮞ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ ، ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﻮﺕ ﺟﮕﺎ ﺩﯼ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﮬﭧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﺯﭦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺌﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮬﻢ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺷﮑﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﮬﯿﮟ ،، ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﮬﯿﮟ ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ،، ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﺩﯼ ،،
ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﯾﮉﻣﻦ ﺁﻓﺲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﮐﻤﺮﮦ ﻧﻤﺒﺮ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ ؟ ﻭﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮬﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﻤﺮﮦ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭨﺲ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ،ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﻭﺍﻟﺪ ﺟﺎﺏ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﺟﺰ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﻤﺮﮦ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ،، ﻣﯿﮟ ﻭﮬﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﻨﯿﺠﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻋﻼﺝ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺍﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﺮ ﻧﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺭﮐﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﻌﯿﺪ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﯾﭧ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺮﯾﭩﯽ ﺍﺩﺍﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ ، ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮬﯽ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﮐﯽ ﺳﮑﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ،، ﻣﺪﯾﺮ ﮐﺎ ﺩﻭﭨﻮﮎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﮍﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﺍﺋﯿﺎﮞ ﮬﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﯾﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺞ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺭﮐﮭﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ،،
ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺷﻮﻕ ﮬﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮭﮍﺍ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ،، ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮬﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺗﻮ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ ﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺞ ﭘﮧ ﻧﮧ ﺁ ﺳﮑﺎ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ ، ﻣﯿﮟ ﻭﮬﺎﮞ ﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﭼﮫ ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﺁﺭﮈﺭﺯ ﮐﯿﻨﺴﻞ ﮐﺮﺍ ﺩﯾﺌﮯ ،،،،،
ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺣﺞ ﭘﮧ ﻧﮧ ﺟﺎ ﺳﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﺴﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﮭﯽ، ،،،،
ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺣﺞ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﺁﮔﺌﮯ ؟ ﻋﺒﺪﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺑﮯﭼﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ،،
ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﻟﯿﭩﺎ ﺗﻮ ﺣﺞ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﺳﮏ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺊ ﺑﺎﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ - ﮐﺊ ﺑﺎﺭ ﻟﺒﯿﮏ ﺍﻟﻠﮭﻢ ﻟﺒﯿﮏ ﮐﮩﺘﮯ ﻣﺠﻤﻌﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ،، ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮬﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ ،، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺖ ﮐﺎ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺣﺞ ﮐﯽ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺗﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ ۔۔ ﺣﺠﺎً ﻣﺒﺮﻭﺭﺍً ﯾﺎ ﺣﺎﺝ ﺳﻌﯿﺪ ،ﻟﻘﺪ ﺣﺠﺠﺖ ﻓﯽ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ ﻗﺒﻞ ﺍﻥ ﺗﺤﺞ ﻓﯽ ﺍﻻﺭﺽ ، ﺩﻋﻮﺍﺗﮏ ﻟﻨﺎ ﯾﺎ ﺣﺎﺝ ﺳﻌﯿﺪ ،، ﺍﮮ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﺣﺞ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ،ﺗﻮ ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺣﺞ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ،ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺣﺞ ﮐﯽ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭ ،،
ﺍﺳﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﻮﻥ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﮕﺎ ﺩﯾﺎ - ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﺎ ﻣﯿﻨﺠﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﮩﮧ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﺹ ﻣﻌﺎﻟﺞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ، ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻟﺞ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺷﺪﯾﺪ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮬﻮ ﮔﺊ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﻦ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﺞ ﭘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ،ﻟﮩﺬﺍ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯿﺠﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ، ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮉﻣﻦ ﺁﻓﺲ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﮟ ،،،،،،،،،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺷﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﻔﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﺁﻓﺲ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﯿﺌﮯ ﯾﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ،،ﺣﺞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮬﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺣﺞ ﮐﺮﺍ ﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮬﮯ ،ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﯽ ﮬﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﻭﺿﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ،، ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻨﺎﯾﺎ ،، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮑﮯ ﺳﮯ ﮬﯽ ﻓﻮﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﻼﺝ ﺗﮏ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ ، ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮬﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﭙﺮﻭﺍﺋﺰﺭ ﮐﯽ ﭘﻮﺳﭧ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ،، ﯾﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﺞ ﮐﺮﺍ ﺩﯾﺎ ،،،
ﻋﺒﺪﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﮯ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﺎ ﻣﺎﺗﮭﺎ ﭼﻮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺱ ﺣﺞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﻗﺮﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﯾﺴﮯ ﮬﺰﺍﺭ ﺣﺞ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ،ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺁﺗﺎ ﺭﮬﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻻﯾﺎ ﮬﮯ ،، ﺣﺎﺝ ﺳﻌﯿﺪ ، ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺞ ﮐﯽ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ ،، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺣﺞ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ


 ،،

روح

*موضوع: روح*

*کیا روح ہر جمعرات کو اپنے اہل وعيال کے گھر آتی ہے*

*جواب:*
گھر ميں روح كے آنے كا بيان صحيح السند روايات ميں وارد ہوا ہے۔ الكافى كى تيسرى جلد ميں اس موضوع پر ايك باب باندھا گيا ہے جس كا عنوان يہ ہے: *’’ميت كا اپنے اہل وعيال كى زيارت كرنا‘‘*۔
*روايت۱:*
1- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَزُورُ أَهْلَهُ فَيَرَى مَا يُحِبُّ وَ يُسْتَرُ عَنْهُ مَا يَكْرَهُ وَ إِنَّ الْكَافِرَ لَيَزُورُ أَهْلَهُ فَيَرَى مَا يَكْرَهُ وَ يُسْتَرُ عَنْهُ مَا يُحِبُّ قَالَ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَزُورُ كُلَّ جُمْعَةٍ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَزُورُ عَلَى قَدْرِ عَمَلِهِ.
*ترجمہ:* امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: بے شك مومن اپنے اہل وعيال كى زيارت كرتا ہے، پس وہ اس چيز كو ديكھتا ہے جو اسے پسند و محبوب ہے اور جسے وہ نا پسند كرتا ہے وہ اس سے پوشيدہ كر دى جاتى ہے، اور كافر بھى اپنے اہل و عيال كى زيارت كرتا ہے، وہ اس شىء كو ديكھتا ہے جسے ناپسند كرتا ہے اور جسے پسند كرتا ہے وہ اس سے پوشيدہ كر ديا جاتا ہے، ان ميں سے بعض وہ ہيں جو ہر جمعہ كو زيارت كرتے ہيں، اور ان ميں سے بعض ہیں جو اپنے عمل كى مقدار كے مطابق زيارت كرتے ہيں۔ (يعنى جو زيادہ ايمان اور عمل صالح ركھتا ہے وہ اتنى زيادہ مقدار ميں زيارت كر سكتا ہے)
📗الكافى، ج ۳، ص ۲۳۰، كتاب الجنائز، باب أن الميت يزور أھلہ، حديث۱، يہ حديث صحيح السند ہے۔ *روايت ۲:* 🔹بعد کی روايت ميں وارد ہوا ہے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
مَا مِنْ مُؤْمِنٍ وَ لَا كَافِرٍ إِلَّا وَ هُوَ يَأْتِي أَهْلَهُ عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ فَإِذَا رَأَى أَهْلَهُ يَعْمَلُونَ بِالصَّالِحَاتِ حَمِدَ اللَّهَ عَلَى ذَلِكَ وَ إِذَا رَأَى الْكَافِرُ أَهْلَهُ يَعْمَلُونَ بِالصَّالِحَاتِ كَانَتْ عَلَيْهِ حَسْرَةً.

🔻ترجمہ: كوئى ايسا مومن اور كوئى ايسا كافر نہيں ہے مگر وہ زوالِ شمس (ظہر كے وقت) اپنے اہل و عيال كے پاس آتا ہے، جب مومن اپنے اہل كو صالح عمل كرتے ہوئے ديكھتا ہے تو اس پر اللہ كى حمد بجالاتا ہے، اور جب كافر اپنے اہل و عيال كو صالح عمل كرتے ديكھتا ہے تو اس پر حسرت كرتا ہے (كہ اے كاش ميں بھى اس عمل كو انجام ديتا) 📗الكافى، ج ۳ ، س ۲۳۰، حديث ۲۔
🔹بعض روايات كے مطابق ميت ايك پرندے يا چڑيا يا اس سے چھوٹے پرندے كى صورت ميں دو فرشتوں كے ہمراہ زيارت كے ليے آتى ہے۔ نيز مومن كى روح اپنى قدر و منزلت كے مطابق زيارت كر سكتى ہے۔ ہر جمعہ كو زوالِ شمس (ظہر كے وقت ) زيارت كر سكتى ہے۔ ليكن بقيہ دنوں ميں اسے يہ قدرت و اجازت عطا نہيں ہوتى۔ ليكن جو مومن منزلت و مرتبہ ركھتا ہے اس كے مطابق سال، مہينوں اور ہفتوں كے بقيہ دنوں ميں دو يا تين يا اس سے زائد اذنِ زيارت اللہ تعالى كى طرف سے عنايت ہوتا ہے۔
🅾 نتيجہ :
۱) ميت كا گھر ميں زيارت كے ليے آنا صحيح السند روايات ميں وارد ہوا ہے اور وقتِ زيارت ’’ظہر كا وقت‘‘ ہے اور جمعہ كا دن۔ البتہ اگر مومن صاحب منزلت و مرتبہ ہے تو جمعہ كے علاوہ بقيہ دنوں ميں بھى زيارت كے ليے آتا ہے۔ ’’جمعہ كا دن‘‘ مومن اور كافر ہر كے ليے قرار ديا گيا ہے۔ كافر كے ليے يہ زيارت تكليف و غم كا باعث ہے اور مومن كے ليے خوشى۔

۲) اگر ديگر روايات كو ملاحظہ كريں تو معلوم ہو گا روح كا تصور انسانى بدن كى مانند نہيں ہے كہ اگر ايك جگہ ہے تو دوسرى جگہ نہيں۔ بلكہ روح ايك لطيف مخلوق ہے جو مجرد ہے اور ماديت اور مادى اجزاء سے بے نياز ہے۔ اس ليے روح پھيلاؤ كى صورت ميں احاطہ كرتى ہے۔ نہ كہ ايك طرف سے منتقل ہو كر دوسرى طرف بدنِ انسانى كى طرح چلى جاتى ہے۔
۳) روايات ميں روح كو سورج سے تشبيہ دى گئى ہے كہ جس طرح سورج ايك جگہ ہوتا ہے ليكن اس كى كرنيں اور روشنى ايك بڑى علاقے كو گھير ليتى ہے اور سورج اس سے تعلق ركھتا ہے۔ اسى طرح روحِ انسانى ہے۔ البتہ روحِ انسانى كا احاطہ كرنا اس كى ايمانى منزلت اور مرتبہ كے مطابق ہے۔ جيساكہ روايت ميں وارد ہوا ہے:
*روايت ۳ :*
ٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ النَّوْفَلِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقِ ع الْمُؤْمِنُ يَرَى الرُّؤْيَا فَتَكُونُ كَمَا رَآهَا وَ رُبَّمَا رَأَى الرُّؤْيَا فَلَا تَكُونُ شَيْئاً فَقَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا نَامَ خَرَجَتْ مِنْ رُوحِهِ حَرَكَةٌ مَمْدُودَةٌ صَاعِدَةٌ إِلَى السَّمَاءِ فَكُلَّمَا رَآهُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاءِ فِي مَوْضِعِ التَّقْدِيرِ وَ التَّدْبِيرِ فَهُوَ الْحَقُّ وَ كُلَّمَا رَآهُ فِي الْأَرْضِ فَهُوَ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ فَقُلْتُ لَهُ وَ تَصْعَدُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ إِلَى السَّمَاءِ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ فِي بَدَنِهِ فَقَالَ لَا لَوْ خَرَجَتْ كُلُّهَا حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ إِذاً لَمَاتَ قُلْتُ فَكَيْفَ يَخْرُجُ فَقَالَ أَ مَا تَرَى الشَّمْسَ فِي السَّمَاءِ فِي مَوْضِعِهَا وَ ضَوْؤُهَا وَ شُعَاعُهَا فِي الْأَرْضِ فَكَذَلِكَ الرُّوحُ أَصْلُهَا فِي الْبَدَنِ وَ حَرَكَتُهَا مَمْدُودَةٌ.
*ترجمہ:* محمد بن القاسم نوفلى بيان كرتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے پوچھا: مومن خواب ديكھتا ہے تو كبھى جيسا وہ ديكھتا ہے ويسا ہى ہوتا ہے اور كبھى وہ خواب ديكھتا ہے ليكن اس كے مطابق نہيں ہوتا ہے؟
امام عليہ السلام نے فرمايا:
جب مومن سوتا ہے تو اس كى روح ميں سے ايك حركت ہوتى ہے جو پھيلى ہوئى ہوتى ہے آسمان كى طرف جاتى ہے، پس جب بھى مومن كى روح تقدير اور تدبير كے مقام پر ملكوتِ آسمان كو ديكھتى ہے تو وہ ’’حقّ‘‘ ہوتا ہے، اور جب بھى مومن كى روح زمين ميں (كسى واقعہ يا زمين كو) ديكھتى ہے تو خواب ميں دكھائى دينے والے اشتباہات اور حق باطل كا اختلاط ہے۔
راوى كہتا ہے كہ ميں نے امام عليہ السلام سے پوچھا: كيا مومن كى روح آسمان كى طرف جاتى ہے؟
امام عليہ السلام نے فرمايا: بالكل
راوى كہتا ہے ميں نے كہا: اس كے بدن ميں كوئى شىء باقى نہيں رہتى؟
امام عليہ السلام نے فرمايا: نہيں ، ايسا نہيں ہے، كيونكہ اگر اس کی روح تمام كى تمام بدن سے خارج ہو جاتى اور كچھ باقى نہ بچتا تو وہ مر جاتا۔
راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: پھر كيسے روحِ مومن خارج ہوتى ہے؟
امام عليہ السلام نے فرمايا: كيا تم نے آسمان ميں سورج نہيں ديكھا كہ وہ اپنى جگہ پر ہوتا ہے ليكن اس کی كرنيں اور اس كى شعاعيں زمين پر ہوتى ہيں، بالكل اسى طرح روح بھی اصل بدن ميں ہوتى ہے اور اس كى حركت پھيلى ہوئى ہوتى ہے۔
📗أمالى الشيخ الصدوق، ص ۱۴۵، مجلس ۲۹، حديث ۱۵۔
🔻 اس حديث پر غور كريں تو ہميں روح كے بارے ميں معلوم ہو گا كہ وہ ايك بدنى چيز يا مادى چيز نہيں ہے۔ بلكہ وہ ايك پھيلاؤ كى صورت ميں حركت ركھتى ہے۔ نيز چونكہ ہمارا عقلى رشد كا دائرہ وسيع نہيں ہے اور قليل علم ركھتے ہيں اس ليے تشبيہ كا سہارا لے كر كچھ خصوصيات واضح كى جاتى ہے۔ جيساكہ روايت ميں ديكھا كہ راوى كے ليے يہ حقائق ہمارى طرح سمجھنا مشكل تھے تو اس كى ظرفيت اور علم كے مطابق ايك مثال سے روح كے چند جوانب بيان كيے۔ يہى صورتحال ہمارى ہے كہ ہم روح كے بارے ميں وسيع معلومات اس ليے حاصل نہيں كر سكتے كيونكہ ہمارى عقل و علم كا دائرہ محدود ہے۔
🔻ان روايات سے يہ بھى معلوم ہوا كہ ہميں روح كى زيارت كے عنوان سے خودساختہ اعمال انجام نہيں دينے چاہيے۔ بلكہ صرف اعمال صالحہ برپا كرنے چاہيے تاكہ اس منظر كو ديكھ كر ميت خوش ہو جائے۔ جيساكہ اوپر روايات ميں وارد ہوا ہے۔ بقيہ من گھڑت اعمال سے پرہيز كرنا چاہيے۔
🔻ميت كے آنے سے گھر ميں كسى شىء ميں كمى يا اضافہ نہيں ہوتا۔ نہ ہى ميت كسى پہلو كے اعتبار سے اثر انداز ہوتى ہے۔ البتہ ان مناظر كو ديكھ كر ميت بارگاہِ الہى ميں دعا كرے تو اللہ تعالى اپنے عبدِ مومن كى گزارش پر خير و بركت عنايت فرما سكتا ہے۔
🔻ميت كى زيارت ميں اصل نعمت اور خوشى ميت كے ليے ہے۔ يہ روايات زندوں كى نويد يا خوشخبرى سے تعلق نہيں ركھتى بلكہ مرنے كے بعد كے احوال كو بيان كرتى ہيں۔ زندوں كو نہ ميت كے آنے كا علم ہوتا ہے اور نہ ان كے گھروں پر اس كے اثرات مرتب ہوتے ہيں سوائے اس كے کہ ميت اگر مومن ہے اور اپنے اہل و عيال كى طرف توجہ كرنے كى صورت ميں ان كے ليے دعا كرے۔
🔻زندوں كے ليے ان روايات ميں يہ فرصت مہيا ہے كہ وہ اعمال صالح كو برپا كر كے اور شر و گناہ كو برطرف كر كے اپنے مرنے والوں كى خوشى كا باعث بنيں.

کسی بھائی کی پوسٹ سے کاپی کیاگیاہے ۔

Hacking for beginners Hacking for beginners