AmazonAffiliate

Hack

GADGETS

Life & style

Games

Sports

"عید قرباں"


‎السلام علیکم
بقر عید کی قربانی کے سلسلے میں گروپ پہ سوالات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ہم نے سوچا ان سوالات کو ایک جگہ جمع کرکے جوابات دے دیئے جائیں
"عید قرباں"
‎*مستحب قربانی کے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ مہربانی فرما کر پوری پوسٹ پڑھئے گا انشاء اللہ مفید ہوگا*
‎سب سے پہلے یہ واضح کر دیں کہ فقہ جعفریہ میں غیر حاجی ( جو حج نہیں کر رہا ہے) کو چاہیے کہ صاحب استطاعت ہو نے کے باوجود بھی قربانی واجب نہیں بلکہ مستحب تاکیدی / مستحب مؤکدہ ہے
‎واجب قربانی(جو حاجی احرام کی حالت میں کرتا ہے) اور مستحب قربانی کے مسائل میں اچھا خاصا فرق ہے
‎جس کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کی حقیقت فقہ جعفریہ میں بالکل مختلف ہیں لہذا ہم کو اپنی فقہ کو فالو کرنا چاہیے اور جو لوگ ان غلط فہمیوں کی وجہ سے قربانی سے محروم ہو جاتے ہیں وہ بھی اس عظیم ثواب میں شامل ہو جائیں
‎اب آتے ہیں ان غلط فہمیوں کی طرف
غلط فہمی 1⃣
‎کٹے ہوئےکان والا،سینگ ٹوٹا وغیرہ وغیرہ کی قربانی نہیں ہو سکتی ہے؟
 جواب: عید الاضحی پر مستحب قربانی میں عیب دار جانور مثلاََ اندھا، لنگڑا ، کٹے ھوئے کان والا، ٹوٹی ھوئی ھڈی والا، ٹوٹے ھوئے سینگوں والا ،خصّی ، بہت بوڑھا و کمزور و لاغر بھی قربان کیا جا سکتا ھے *البتہ احتیاط اور افضل و بہتر یہی ھے کہ جانور صحیح و سالم اور موٹا ھو*
‎نر و مادہ کا بھی کوئی فرق نہیں
💠 بہت سے افراد جو زیادہ پیسے قربانی پر خرچ نہیں کر سکتے وہ اس طرح کے کم خرچ جانور کی قربانی کر سکتے ہیں اسے حرام سمجھ کر بالکل ھی ثواب سے محروم نہ رہ جائیں
 غلط فہمی 2⃣
‎اونٹ میں دس حصے گائے میں سات اور بکرا میں کوئی حصہ نہیں ہوتا
 جواب : مستحب قربانی میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں حتی کہ ایک بکرے میں بھی آپ تمام گھر والوں کا حصہ ڈال سکتے ہیں
🔹اور تمام مرحومین و زندہ کی طرف سے حصہ ڈال سکتے ہیں
‎مستحب قربانی میں جائز ہے کہ انسان خود اپنی طرف سے اور اپنے گهر والوں کی طرف سے ایک جانور کو قربان کرے اور اسی طرح قربانی میں کثیر تعداد کا حصہ ڈالنا جائز ہے وہ چاہیے کوئی بهی قربانی والا جانور ( اونٹ، گائے، بھینس، بکرا، بھیڑ،بکری، دنبہ) ہو
💠کسی بھی ايک جانور ميں سات يا سات سے كم افراد كے شريک كرنے كى كوئى قيد نہيں ہے بلكہ جتنے افراد چاہيں ان كى طرف سے ايک جانور ميں حصہ ڈالا جا سكتا ہے
 غلط فہمی 3⃣
‎قربانی کے جانور میں حصہ برابر ڈالنا چاہیے کم یا زیادہ نہ ہو
 جواب : مستحب قربانی میں شرکت کے لیے لوگوں کی رقم کا برابر ہونا ضروری نہيں ہے
‎مثلاً ایسا کیا جا سکتا ہے ایک بکرے یا کسی بھی جانور میں ایک آدمی 1000 ڈالتا ہے تو دوسرا 5000 ڈال سکتا ہے تو تیسرا 10,000 وغیرہ وغیرہ
 غلط فہمی 4⃣
‎جتنے حصے ڈالے گئے بس اتنے شخص کی طرف سے قربانی ہو گی اور مکمل قربانی نہیں مانی جاتی
 جواب: ایسا نہیں اگر آپ ایک حصہ بھی ڈالتے ہیں تو اس میں اپنے سب گھر والوں و مرحومین کی نیت کر لے تو بھی سب کی طرف سے قربانی مانی جائے گی
‎اللہ تعالٰی آپ کا خلوص دیکھنا چاہتا ہے
‎رسو اللہ ص ایک جانور ذبحہ کرتے وقت فرماتے تھے کہ یا اللہ یہ قربانی میری , میرے اہلبیت اور تمام امت کی طرف سے قبول فرما....
‎یعنی کوئی حد ہی نہیں ہے جتنی مرضی لوگوں کو ایک قربانی میں شامل کیا جاسکتا ہے
غلط فہمی 5⃣
‎دو دانت ہونا چاہیے
جواب: دو دانت والی کوئی شرط نہیں بس عمر کو دیکھنا ہوتا ہے 💢موضوع : قربانی (مستحب قربانی)💢
‎قربانی کے جانور 🐄🐐🐪میں معتبر ہے کہ وہ انعام ثلاثہ ہو (اونٹ، گائے،بهینس،بکرا اور بهیڑ،بکری،دنبہ )میں سے ہو
‎*عمر کتنی ہو*
‎احتیاط کی بنا پر اونٹ کے پانچ سال مکمل ہو جائیں(اس سے کم کا نہ ہو) اور چھٹے میں داخل ہو
‎گائے اور بھینس اور بکرا کے لیے ضروری ہے کہ دو سال مکمل ہو جائیں اس سے کم نہ ہو
‎بکری اور بھیڑ اور دنبہ کے سات ماہ مکمل ہو جائیں اس سے کم نہ ہو
غلط فہمی 6⃣
‎قربانی عید کی نماز پڑھ کر ہی کرنی چاہیے
جواب: ایسا نہیں مستحب قربانی میں عید الضحیٰ پڑھنے کی کوئی شرط نہیں
💠قربانی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور طلوع آفتاب کے بعد قربانی کا افضل وقت عید کے پہلے دن نماز عید پرهنے کی مقدار گزر جانے کے بعد ہے
غلط فہمی 7⃣
‎کپورے مکروہ ہے
جواب : کپورے یا فوطے (نر جانور کی اگلی شرمگاہ ) حرام ہے حتی کہ باقی فقہ میں بھی حرام ہے
 غلط فہمی 8⃣
‎جس کو قربانی کرنی ہیں وہ بال و ناخن نہیں کاٹ سکتا
جواب : ضرورى نہيں ہے كہ جس شخص کو قربانى كرنى ہے وہ اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے ۔ جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہے وہ شخص ناخن اور بال كاٹ سكتا ہے ۔ البتہ جو شخص حج تمتع كرنا چاہتا ہے اس كے ليے مستحب ہے كہ وہ اپنے بال چھوڑ دے اور منى ميں حلق كر كے كٹوائے ۔ نيز يہ عمل غير حاجيوں كے ليے نہيں ہے
( یہ مضمون آیت الله سیستانی، آیت الله خامنہ ای اور آیت الله مکارم شیرازی
کی توضیح المسائل اور سوالات و جوابات سے لیا گیا ہے )
‎اس کے علاوہ اور بھی غلط فہمیاں ہو گی لیکن ہم نے اہم اہم بیان کی ہیں
💠امید آپ سب اس سے استفادہ کریں گے اور وہ مومنین جو آجکل کی مہنگائی کے دور میں ان تمام شرائط کو دیکھتے ہوئے قربانی نہیں کر سکتے لیکن ضروری نہیں وہ بھی آپس میں کثیر تعداد میں حصہ ڈال کر اس ثواب میں شامل ہو سکے گے انشاء اللہ🌹
‎آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ خداوندعالم ہمیں صحیح معنوں میں سیرت معصومین علیہم السلام پر چلتے ہوئے دین کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. (امین)
اقتباس
والسلام
روبی

ولایت فقیہ

کچھ عرصہ سے پاکستان میں ولایت فقیہ کی جو کہ ایک غیر معصوم کی ولایت ہے اس کی باقاعدہ تبلیغ ہو رہی ہے یہ ایک کھلی گمراہی ہے اور یہ تبلیغ اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ لوگ اس کو شہنشاہ ولایت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت عظمی کے برابر گرداننے لگے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فلان کی ولایت اسی ولایت کا تسلسل ہے اس لئے ان سطور کو لکھنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
مولا علی کی ولایت کا انکار کرنا کفر ہے
ولایت فقیہ کا انکار کرنا گناہ بھی نہیں ہے
ولایت فقیہ کا تعلق نہ اصول دین سے ہے اور نہ فروع دین سے اور نہ ہی اس کا تعلق عقیدے سے ہے یہ صرف مجتہدین کے درمیان ایک موضوع ہے اس کا عوام کے ساتھ تعلق ہے ہی نہیں ہے حقیقت یہی ہے کہ حکومت کرنے کا حق امام معصوم کے علاوہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ 11 سو سالوں سے شیعہ مراجع نے حکومت ہاتھ میں لینے کی کبھی کوشش نہیں کی ہیں سفیر رابع کی وفات کے بعد سے ابھی تک لاکھوں کی تعداد میں مجتہدین گزرے ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک مایہ ناز تھے انہوں نے علم و استدلال کے ایسے سرچشموں کو شگافتہ کیا جن سے سیراب ہو کر ہی آج لوگ مسلم مجتہد بن رہے ہیں لیکن انہوں نے حکومتی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لینے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ شیعہ مذھب کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ اسلامی حاکم کے لئے معصوم ہونا ضروری ہے اسی لئے ہم امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و امامت کو ان کی عصمت سے ثابت کرتے ہیں اور قرآن کی یہ آیت (( لا ینال عہدی الظالمین )) نہ صرف غیر معصوم کی حکومت کو نفی کرتے ہیں بلکہ اس کے اسلامی حکومت ہونے کے دعویداروں کے منہ پر جھوٹے ہونے کا مہر ثبت ہے اگر کوئی غیر معصوم اسلام کے نام پر حکومت قائم کرتا ہے وہ صرف نام کا اسلامی ہو سکتا ہے حقیقت میں اسلام کا دور سے بھی واسطہ نہیں ہے
دوسری بات یہ کہ اگر مجتہد اپنی من گھڑت حکومت کے مخالفین کو کچل دے یا انہیں قتل کرئے تو وہ مجتہد فاسق و فاجر اور طاغوت ہے کیونکہ قتل کرنا ظلم کرنا اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرنا گناہ کبیرہ ہے جس کا مرتکب ہونے سے مجتہد فاسق ہوجاتا ہے اور اس کی محدود ولایت ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ مجتہد کی محدود ولایت کے لئے بھی عدالت بنیادی شرط ہے اگرچہ وہ اپنی خود ساختہ قوت کے ذریعے لوگوں کی نظر میں مقدس رہ سکتا ہے لیکن در حقیقت وہ شیطان ہوگا جبکہ امام معصوم کی حکومت کا مخالف مرتد اور ان کے خلاف خروج کرنے والے کا خون مباح ہے
جنگ جمل کے بعد عائشہ نے جناب مالک اشتر رضوان اللہ تعالی علیہ سے کہا (( کسی کا قتل تین چیزوں کی وجہ سے جائز ہے یا کافر و مرتد ہونا یا قصاص میں قتل کرنا یا حد جاری کرکے قتل کرنا اور تم لوگوں نے اتنے لوگوں کا خون کس بنا پر بہایا ہے ؟؟ ))
مالک اشتر رض جو ایک برجستہ اسلامی سربراہ تھے انہوں نے فورا کہا (( ہم نے انہی تینوں وجوہات میں سے کسی ایک وجہ کی بنا پر
ان لوگوں کو قتل کیا ہے ۔ )) حقیقت بھی یہی تھی کہ امام علی ع سے جنگ کرنے والے کافر و مرتد تھے
تیسری بات امام معصوم کو حقایق کا علم ہوتا ہے اس لئے ان کی حکومت میں ہونے والے فیصلے واقع کے مطابق ہوتے ہیں جبکہ مجتہد واقع اور حقایق سے جاہل ہوتے ہیں اس جہت سے مجتہد کی حکومت اور عمر ابن خطاب کی خلافت میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ عمر کی خلافت بہتر ہے کیونکہ اس کے غلط فیصلوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مولا علی ع موجود تھے جبکہ مجتہد کے غلط فیصلوں کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی معصوم نہیں ہے اگر امام زمانہ عج سے رسائی کا دعوی کرئے تو خود امام زمانہ عج نے اس کے منہ پر تھوکنے کا حکم دیا ہے
اب بتاؤ کیا کرئے گا بے چارہ ولی فقیہ
اگر ولایت فقیہ کو حکومت کے معنی میں لے تو اسے خلافت فقیہ کہنا چاہئے نہ کہ ولایت فقیہ وہ ابوبکر بغدادی کی طرح خلافت قائم کر سکتا ہے اسے ولی امر مسلمین کہنے کے بجائے خلیفۃ المسلمین کہنا چاہئے
امید کی جاتی ہے کہ ولایت کے نام پر لوگوں کے بالخصوص جوانوں کے افکار سے کھیلنے کا سلسلہ رک جائے گا
ورنہ اگر ولایت فقیہ کے رد میں دلائل سامنے آنے لگے تو پھر شیعہ عوام اور جوان طبقہ
ان ولایتیوں کو بھاگنے کا موقع نہیں دیں گے
Show More Re

وقت وقت کی بات ہے

"اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکراپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا 
تھا ….!!


یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“ کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے …..!!بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی…….!!۔لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا،
صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ”
*میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا* ،،۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔……!!اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں……!!کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ مہمانوں کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے فینائل کی خوشبو والے بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ، مہمان کے لیے دُھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیہ رکھی جاتی تھی…..!!جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے، مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا ، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا…..!! شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا
علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا، جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے، محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا…….!!کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دُکھ ایک جیسے تھے…..!!سب غریب تھے،
سب خوشحال تھے، کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔ دوکاندار کو کھوٹا سکہ چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا۔….کاش پھر سے وہ دن لوٹ آئیں"

عنوان : بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟؟؟جمعتہ المبارک

جمعتہ المبارک
وہ دن جس کو اسلام کو خاص اھمیت حاصل ھے. اس دن دنیا بھر کے مسلمان (بلا تفریق فقہ و مسلک) نہایت اھتمام سے عبادت کا مصلہ سجاتے ہیں اور اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلیئے کوشاں رھتے ہیں۔
مگر پھر کیا دیکھتا ھوں کہ وھی کچھ نام نہاد جہادی جو خود کو مسلمان بتاتے ہیں مگر اصلیت دھشتگرد و خوارج کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے مسالک بھی واضح ہیں ، ان کے اجداد بھی صاف ظاھر ہیں اور ان کے پالنے والے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
علامہ اقبال نے ایسے ھی لوگوں کے ضمن میں کیا خوب کہا ھے :
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر تو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اسی طرح نعرہ تکبیر بلند کرتے ھوئے اک بار پھر داعشی چوپایوں نے افغانستان میں دوران نماز جمعہ اک اہل تشیع کی مسجد پر حملہ کر دیا جس میں میری اطلاعات کے مطابق ابھی تک 27 افراد شہید اور کئی درجن زخمی حالت میں ہیں۔
کچھ روز قبل انہی داعشی درندوں نے اک شیعہ اکثریتی گاوں میں نہتے شہریوں پہ حملہ کر دیا تھا جس میں درجنوں لوگ جان کی بازی ھار بیٹھے۔
دھشتگردوں کا انتخاب روز مبارک جمعہ ھی کیوں؟
وحشیوں کا نشانہ صرف شیعہ ھی کیوں؟
ان بین الاقوامی حملوں میں ایک بات مشترک ھے اور وہ ھے نشانہ ، جو کہ شیعہ ہیں!
پاکستان میں کبھی پشاور کی امامیہ مسجد سرخ نظر آئی تو کبھی شکارپور میں 200 جنازے دیکھنے کو ملے، کبھی محرم کے جلوس میں کراچی کو لال دیکھا تو کبھی پشاور ، راولپنڈی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان حتی کہ پاکستان کا کوئی بھی نمایاں شہر نہیں رھا۔
کوئٹہ و پاڑا چنار کی تو داستانیں ھی الگ ھے ، ھر گھر شہیدوں کے لہو سے روشن ھے ، ھر گھر کا اک چراغ ضرور گل ھے۔ کئی گھروں کے گو کفیل بھی باقی نہیں رھے اور اب ان کے بچے بھیک مانگنے و کام کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
کراچی و پشاور و ڈی آئی خان و کوھاٹ و لاھور کی شیعہ ٹارگٹ کلنک ان سب بم دھماکوں سے ما سوا ھے۔
گویا دھشتگردی کے خلاف ایندھن بننے والی اکثریت اہل تشیع کی ھے ، اور نہایت افسوس کیساتھ کہنا پڑ رھا ھے کہ اب بھی پاکستان کیساتھ ان کی حب الوطنی پہ شک کیا جائے!
انھیں خاکروبوں کی بھرتی کیلیئے مائینوریٹیز کے خانے میں لکھنا تو سمجھ ھی سے بالا ھے!
یمن ، شام ، بحرین ، قطیف ، العوامیہ ، عراق ، نائیجیریا کی داستانیں ان سب سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔
مجھے شہروں سے اندازہ ھوتا ھے
درندے اب نہیں ہیں جنگلوں میں!



امام مھدی (عج) یھودی، عیسائی اور حدیث کی کتب میں


تقریبا ہر مذہب میں ایک آخری زمانی میں آنے والے کا عقیدہ ہے جسکا خدا نے وعدہ کیا ہے، جو آکر دنیاء کو ظلم اور ناانصافی سے پاک کردے گا اور انصاف و عدل سے بھر دے گا۔ یہ ہندوؤں کے ہاں کلکی اوتار (سنسکرت میں कल्कि) ہے، ٹاوازم جو کہ چین میں پایا جاتا ہے اس میں لی ہونگ (چائنیز میں 李弘) ہے، زرتشت یا مجوسیوں کا مذہب جو ایران کا ہے اس میں سوشینت کا ذکر ملتا ہے، یھودیت میں مشیخ (عبرانی میں מָשִׁיח) کا ذکر ہے، عیسائیت میں مسیح (یونانی میں Χριστος) کا ذکر ہے اور بدھ مت میں مائتریا (سنسکر میںमैत्रेय ) کا ذکر ہے۔ ان اشخاص کے متعلق یہ بات مشترک ہے کہ انکا آخری زمانے میں آنے کا ذکر ہے جب دنیاء میں ہر طرف ظلم و ستم ہوگا اور وہ اسکو اس میں سے نکالے گا، اور انکے آنے کی پیشن گوئیاں میں موجود ہیں متعلقہ مذہب میں۔ ہماری تحریر یھودیت، عیسائیت اور اسلام میں اس شخصیت کے متعلق ہے، جو کہ تینوں ابراہیمی مذاہب کہلاتے ہیں۔ ان مذاہب کی مشابہت پر بھی حقیر ایک تحریر لکھ چکا ہے۔ ہم محمد ﷺ اور انکے اہل بیت علیھم السلام کے اہل کتاب کی کتب میں ذکر کے متعلق تحاریر لکھ چکے ہیں، اب ہم امام مھدی (عج) کی بات کریں گے۔
یھودیت
یھودیت میں ایک مشیخ یا عبرانی زبان میں מָשִׁיח کا ذکر ہے۔ یھیودیوں کے 13 اصول دین میں سے ایک یہ ہے، یہ بارہواں اصول ہے، مذکور ہے: : אני מאמין באמונה שלמה בביאת המשיח, ואף על פי שיתמהמה עם כל זה אחכה לו בכל יום שיבוא۔ ترجمہ: "میں پورے ایمان سے عقیدہ رکھتا ہوں مسیح کے آنے پر، حالانکہ وہ تاخیر کر رہا ہے آنے میں، میں ہر روز اسکے آنے کا انتظار کروں گا۔" تلمود، جو کہ یھودیوں کی ایک مقدس کتاب ہے، میں مذکور ہے کہ بہت سے یھودی علماء کی اس موعود شخصیت سے ملاقات بھی ہوتی رہی ہے، جیسے ایک مثال ہے یوشع بن لاوی کی جو نبی الیاس سے ملا اور ان سے پوچھا کہ مسیح کب آئے گا، تو نبی الیاس نے کہا جاکر اس سے خود پوچھ لو، یوشع نے علامت پوچھی تو نبی نے کہا وہ غریبوں اور مساکین کے پاس بیٹھا ہے، تو پھر یوشع بن لاوی مسیح سے جاکر ملے اور گفتگو کی، اور ایسے بہت سے قصے ہیں تلمود میں اور علامات بھی بیان ہوئی ہیں میسح کے آنے کی۔ انکا عقیدہ ہے کہ آخری زمانے میں حضرت داود (ع) کی نسل سے ایک شخص آئے گا جو ساری دنیاء پر حکومت کرے گا۔ اس کو اکثر "بادشاہ مسیح" یا عبرانی میں מלך משיח کہا جاتا ہے۔ انکا عقیدہ ہے کہ مسیح آکر تیسری عبادتگاہ تعمیر کرے گا یروشلم میں۔ پہلی عبادتگاہ کو بابل کے لوگوں نے آکر تباہ کردیا بادشاہ نبخذنصر نے جب حملہ کیا یروشلم پر۔ دوسری مرتبہ جب اسکو تعمیر کیا گیا تو 70 عیسوی میں رومیوں نے آکر تباہ کردیا عبادتگاہ کو۔ اسکے بعد یہ دوبارہ نہ بنی۔ اب جو تیسری مرتبہ یہ بنے گی تو یھودی کتب میں جس جگہ پر بننے کا ذکر ہے ادھر آج مسجد الاقصی کھڑی ہے۔ یھودیوں کی بہت سی مقدس کتب ہیں جیسے تورات، تنخ (جس میں انبیاء کے صحیفے ہیں)، تلمود، مِدراش وغیرہ۔ تلمود میں لکھا ہوا ہے کہ یھودی سال 6000 سے پہلے پہلے مسیح آئے گا، جو کہ عیسوی سال کے مطابق 2230 بنتا ہے۔ اس وقت یھودی سال 5777 ہے، اور ظاہر ہے عیسوی سال 2017 ہے۔ یھودی اپنے سالوں کی گنتی حضرت آدم (ع) کی خلقت سے شروع کرتے ہیں۔ یعنی انکے مطابق آدم (ع) کو 5777 سال پہلے خدا نے خلق کیا تھا۔ اب ہم اس شخصیت جسکا کے متعلق تورات اور تنخ (انبیاء کے صحائف) سے ذکر دیکھیں گے۔ نبی شعیاء کی کتاب باب 2 آیت 4 ہے: "وہ بین الاقوامی جھگڑوں کو نپٹائے گا اور بے شمار قوموں میں انصاف کرے گا۔" یعنی وہ سب اقوام پر حاکم ہوگا اور سب اسکی طرف رجوع کریں گی انصاف کی توقع رکھتے ہوئے۔ نبی شعیا کی کتاب باب 11 آیت 4 ہے: "بلکہ انصاف سے وہ بے بسوں میں عدالت کرے گا اور غیر جانبداری سے دنیاء کے مصیبت زدوں کا فیصلہ کرے گا، اپنے کلام کی لاٹھی سے وہ زمین کو مارے گا اور اپنے منہ کی پھونک سے بے دین کو ہلاک کرے گا۔" یعنی وہ ایک فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہوگا اور دلائل سے حجت تمام کرے گا۔ شعیا باب 11 آیت 9 ہے: "کیونکہ دنیاء خدا کے علم سے ایسے بھر جائے گی جیسے سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے۔" اس ہی کتاب کے باب 25 آیت 8 میں ہے: "الہی فتح کے بعد موت ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی، خداوند ہر ایک کے چہرے سے آنسو پونچھے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی دور کرے گا۔" نبی ارمیاء کی کتاب باب 31 آیت 33 ہے: "رب فرماتا ہے: جو نیا عہد میں اسرائیل کے ساتھ باندھوں گا اسکے تحت میں اپنی شریعت ان کے دلوں میں ڈال دوں گا، تب میں ہی انکا خدا ہوں گا اور وہ میری قوم ہوں گے۔" نبی حزقیل کی کتاب باب 36 آیات 28 تا 29 ہیں: "تب تم دوبارہ اس ملک میں رہو گے جو میں نے تمہارے باپ دادا کو دیا تھا، تم میری قوم ہوگے اور میں تمہارا خدا ہوں گا۔ نیز، میں نجاست کو تم سے دور رکھوں گا۔" یہ عبارت آیت تطہیر سے مشابہ ہے جس میں الله ﷻ نے اہل بیت علیھم السلام کو پاک رکھنے کا کہا ہے، اور ادھر اس شخص سے نجاست دور کرنے کا کہا جا رہا ہے جسکا خدا نے آنے کا وعدہ کیا ہے۔ قرآن اکہتا ہے: ولقد كتبنا في الزبور بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون۔ ترجمہ: "اور ہم نے تورات کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا کہ زمین کے وارث نیک لوگ بنیں گے۔" اور یہ آیت ہمیں آج بھی زبور میں ملتی ہے، زبور باب 37 آیت 29 ہے: "صالح افراد زمین کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔" نبی شعیاء کی کتاب باب 26 آیت 19 ہے: "لیکن تمہارے مردے دوبارہ زندہ ہونگے، انکی لاشیں ایک دن جی اٹھیں گی، اے خاک میں بسنے والوں، جاگ اٹھو اور خوشی مناؤ، کیونکہ تیری اوس نوروں کی شبنم ہے، اور زمین مردوں کو زندگی دے گی۔ " اور ایسا ہی نبی دانیال کی کتاب کے باب 12 میں ہے، پورا باب ہی اس شخصیت کے متعلق ہے جس نے آخر میں آنا ہے خدا کے وعدے کے تحت۔ ان آیات سے رجعت کا پتا چلتا ہے یعنی بعض مردوں کا زندہ ہوکر دوبارہ واپس آنا آخری زمانے میں۔ شعیاء کی کتاب باب 2 آیت 17 ہے: "اس دن صرف رب کی ہی عبادت ہوگی۔" اس ہی کتاب کے باب 11 آیت 2 میں اس شخصیت کی صفات ہیں: "رب کی روح اس پر ٹہری ہوگی، یعنی حکمت اور سمجھ کی روح، اور اسکو خدا کا ڈر ہوگا۔" پھر تورات کی پہلی کتاب، کتاب تکوین کے باب 49 آیت 10 میں ہے: "عصی یھودہ (ایک علاقہ) سے جدا نہیں ہوگا اور نہ ہی شاہی اختیار جدا ہوگا جب تک وہ حاکم نہیں آجاتا جسکی تابعدار ساری اقوام ہونگی۔" نبی دانیال کی کتاب باب 7 میں نبی دانیال کو خواب نظر آتا ہے جس میں آخری زمانے کے حالات ہوتے ہیں، اس کی آیت 13 سے 14 میں نبی دانیال کہتے ہیں: "میں نے اپنے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ آسمان کے بادلوں کے ساتھ ساتھ کوئی آرہا ہے جو ابن آدم جیسا لگ رہا ہے، جب قدیم الایام کے قریب پہنچا تو اس کے حضور لایا گیا۔ اسے سلطنت، عزت اور بادشاہی دی گئی، اور ہر قوم، امت اور زبان کے افراد نے اس کی تابعداری کی، اس کی حکومت ابدی ہے اور کبھی ختم نہیں ہو گی، اس کی بادشاہت کبھی تباہ نہ ہوگی۔" بادل اسکے ساتھ ہونگے، جیسا کہ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام مھدی (عج) کے سر پر بادل کا سایہ ہوگا۔ ادھر ابن آدم کا ذکر ہے، اسکی عبرانی ہے בן אדם، یا ben adám۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ عیسی (ع) اس ابن آدم کے متعلق کیا فرماتے ہیں انجیل میں۔
عیسائیت
عیسائیت میں یہ بات واضح ہے کہ مسیح یا یونانی میں Χριστος (کرسٹوس) عیسی (ع) ہیں، جو کہ مسلمان بھی مانتے ہیں چونکہ قرآن میں بھی انکا یہ لقب ہے۔ عیسائیوں کے مطابق عیسی (ع) کا ذکر یھودی کتب میں ہے کہ آؒخری وقت میں آئیں گے دجال سے لڑنے اور حکومت کرنے۔ کچھ عیسائی دجال سے مراد امام مھدی (ع) بھی لیتے ہیں (نعوذ بالله من ذلك) اپنی کتب کی آیات سے استدلال کرکے، ہماری تحریر کا مقصد کسی کے عقیدے کا رد نہیں لہذا اس پر کلام نہیں کریں گے۔ عیسی (ع) اس ابن آدم کے متعلق بات کرتے ہوئے اور اسکے آنے کی علامات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، متی کی انجیل باب 24 آیات 3 تا 15 میں: "پھر جب عیسی کوہِ‌زیتون پر بیٹھے تھے تو حواری اکیلے میں اُن کے پاس آئے اور کہنے لگے:‏ ”‏ہمیں بتائیں کہ یہ باتیں کب ہوں گی اور آپ کی موجودگی اور دُنیا کے آخری زمانے کی نشانی کیا ہوگی؟‏“‏ عیسی نے جواب دیا:‏ ”‏خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرے کیونکہ بہت سے ایسے لوگ اُٹھیں گے جو میرا نام اِستعمال کر کے کہیں گے:‏ ”‏مَیں مسیح ہوں“‏ اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‏ آپ سنیں گے کہ جگہ جگہ لڑائیاں ہو رہی ہیں مگر اُس وقت پریشان نہ ہوں۔‏ یہ سب باتیں ضرور ہوں گی لیکن تب خاتمہ نہیں ہوگا۔‏ کیونکہ قومیں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گی اور سلطنتیں ایک دوسرے کے خلا‌ف اُٹھیں گی،‏ جگہ جگہ قحط پڑیں گے اور زلزلے آئیں گے۔‏ یہ سب باتیں تکلیفوں کا شروعات ہی ہوں گی۔‏ پھر لوگ آپ کو اذیت پہنچائیں گے اور مار ڈالیں گے اور میرے نام کی خاطر سب قومیں آپ سے نفرت کریں گی۔‏ تب بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے،‏ ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دوسرے سے نفرت کریں گے اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور چونکہ بُرائی بہت بڑھ جائے گی اِس لیے زیادہ ‌تر لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔‏ لیکن جو شخص آخر تک ثابت ‌قدم رہے گا،‏ وہ نجات پائے گا۔‏ اور بادشاہت کی خوش خبری کی مُنادی ساری دُنیا میں کی جائے گی تاکہ سب قوموں کو گواہی ملے۔‏ پھر آخری وقت آئے گا۔‏ ایک دن آئے گا جب تم مقدس مقام میں وہ کچھ کھڑا دیکھو گے جسکا ذکر دانیال نبی نے کیا اور جو بے حرمتی اور تباہی کا باعث ہے۔" ادھر عیسی (ع) بھی دانیال نبی کی کتاب کی اس عبارت کی بات کر رہے ہیں جسکو ہم نے اوپر نقل کیا ہے، کیونکہ وہ بھی واقف تھے اس سے۔ پھر، آیات 23 تا 27 میں مذکور ہے: "تب اگر کوئی آپ سے کہے کہ ”‏دیکھو!‏ مسیح یہاں ہے“‏ یا ”‏دیکھو!‏ مسیح وہاں ہے“‏ تو اُس کا یقین نہ کریں کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بڑے بڑے معجزے اور نشانیاں دِکھا کر چُنے ہوئے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔‏ دیکھیں!‏ مَیں نے آپ کو آگاہ کر دیا ہے۔‏ اِس لیے اگر لوگ آپ سے کہیں کہ ”‏دیکھو!‏ وہ ویرانے میں ہے“‏ تو وہاں نہ جائیں اور اگر وہ کہیں کہ ”‏دیکھو!‏ وہ اپنے کمرے میں ہے“‏ تو اُن کا یقین نہ کریں۔ کیونکہ ابن آدم کی موجودگی بجلی کی طرح ہوگی جو مشرق سے مغرب تک پورے آسمان پر چمکتی ہے۔" پھر آیت 30 اور 31 میں ہے: "پھر ابن آدم کی نشانی آسمان پر دِکھائی دے گی اور زمین کے سب قبیلے غم کے مارے چھاتی پیٹیں گے اور دیکھیں گے کہ ابن آدم آسمان کے بادلوں پر اِختیار اور بڑی شان کے ساتھ آ رہا ہے۔ اور وہ اپنے فرشتوں کو صور کی اونچی آواز کے ساتھ بھیجے گا، اور وہ اسکے چُنے ہوئے بندوں کو جمع کریں گے آسمان کے ایک کونے سے دوسرے تک سے۔" ادھر بھی بادلوں کا "ابن آدم" کے ساتھ ربط بیان کیا جا رہا ہے جیسا کہ نبی دانیال کی کتاب سے ہم بیان کر چکے۔ عیسی (ع) یہ بھی کہتے ہیں کہ فرشتے اسکے ساتھ ہونگے جو نداء دیں گے، اور ہمیں امام مھدی (عج) کے متعلق روایات میں ملتا ہے کہ نداء آئے گی آسمان سے جبرائیل (ع) کی طرف سے جس میں امام (ع) کا نام لیا جائے گا، اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے إن نشا ننزل عليهم من السماء آية فظلت أعناقهم لها خاضعين، ترجمہ: "اور اگر چاہیں تو آسمان سے ایک نشانی نازل فرمائیں جس سے انکی گردنیں جھک جائیں۔"، اور عیسی (ع) کہتے ہیں کہ ابن آدم کے چنے ہوئے بندوں کو جمع کیا جائے گا، جیسے کہ روایات میں ملتا ہے کہ امام مھدی (عج) کے خاص اصحاب کو جمع کردیا جائے گا اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے أين ما تكونوا يأت بكم الله جميعا۔ ترجمہ: "تم جدھر بھی ہوگے الله تم سب کو ایک ساتھ لے آئے گا۔" آیات 37 تا 39: "ابن آدم کی موجودگی نوح کے زمانے کی طرح ہوگی کیونکہ طوفان کے آنے سے پہلے بھی لوگ کھانے پینے اور شادیاں کرنے کروانے میں لگے تھے جب تک کہ نوح کشتی میں نہ گئے۔‏ اور لوگ اُس وقت تک لاپرواہ رہے جب تک طوفان نہیں آیا اور جب طوفان آیا تو وہ سب ڈوب کر مر گئے۔‏ ابن آدم کی موجودگی کے دوران بھی اِسی طرح ہوگا۔" اس "ابن آدم" کو نوح کی کشتی سے تشبیہ دی جا رہی ہے، اس پر محمد ﷺ کی حدیث ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ أهل بيتي فيكم كسفينة نوح عليه السلام في قومه من دخلها نجا ومن تخلف عنها هلك۔ ترجمہ: "میرے اہل بیت کے مثال تمہارے میں نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں داخل ہوا نجات پاگیا، اور جس نے پیٹ پھیر لی ہلاک ہوگیا۔" پھر متی کی انجیل باب 25 آیات 31 تا 32 میں ہے: "جب ابن آدم شان کے ساتھ آئے گا اور سب فرشتے بھی اُس کے ساتھ آئیں گے تو وہ اپنے شاندار تخت پر بیٹھ جائے گا۔‏ تب تمام قوموں کو اُس کے سامنے جمع کِیا جائے گا اور وہ لوگوں کو بالکل اُسی طرح ایک دوسرے سے الگ کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے الگ کرتا ہے۔" لہذا یہ "ابن آدم" جسکی عیسی (ع) بات کر رہے ہیں اور جو نبی دانیال کو خواب میں نظر آیا یہ کوئی اور شخص ہے اور عیسی (ع) خود نہیں کیونکہ وہ خود ہی اسکی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ عیسی (ع) کی واپسی کے متعلق ہمیں ملتا ہے متی کی انجیل باب 7 آیات 22 تا 23 میں جو عیسائیوں کیلئے بھی شاید حیران کن بات ہو، لکھا ہے: "عیسی (ع) نے کہا: اُس دن (میری واپسی کے دن) بہت سے لوگ مجھ سے کہیں گے:‏ ”‏ہمارے رب!‏ ہمارے رب!‏ ہم نے آپ کے نام سے بطور نبی خدمت کی اور آپ کے نام سے شیاطین کو بھگایا اور آپ کے نام سے معجزے کیئے۔‏“‏ لیکن مَیں اُن سے کہوں گا:‏ ”‏بُرے کام کرنے والوں،‏ مَیں تمہیں نہیں جانتا۔‏ مجھ سے دُور ہو جاؤ!‏“‏" لہذا یہ بات واضح ہے کہ عیسی (ع) اپنے بظاہر "ماننے والوں" کو اپنے سے دور کردیں گے، وہ ہندوؤں کو نہیں کہیں گے دور ہوجاو، یھودیوں کو نہیں، مسلمانوں کو نہیں، مگر آیت میں ہے کہ عیسائیوں کو کہیں گے۔ اور یہ اس لیئے کیونکہ وہ عیسی (ع) کو رب کہتے ہیں، عیسی (ع) تو واپس ہی اس لیئے آرہے ہیں کہ عیسائیوں کے عقائد کی تصحیح ہو جو وہ انہوں نے خدا کے نبی کو رب بنا دیا، اور اب یہ تو انکے ساتھ ہوگا جو عیسی (ع) کو رب کہتے ہیں، جو معصومین علیھم السلام کو رب کہتے ہیں انکے ساتھ امام مھدی (عج) کا کیا سلوک ہوگا یہ الله بہتر جانتا ہے۔ اور حدیث سے ہے: " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ وَاللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلاَ يَقْبَلُهُ أَحَدٌ ‏"‏ ‏ترجمہ: "رسول الله ﷺ نے فرمایا : ’’الله ﷻ کی قسم ! یقیناً عیسیٰ بن مریم _عادل حاکم (فیصلہ کرنے والے) بن کر اتریں گے ، ہر صورت میں صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے ، جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی، لوگوں کے دلوں سے عداوت ، باہمی بغض و حسد ختم ہو جائے گا، لوگ مال ( لے جانے) کے لیے بلائے جائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہ کرے گا (مال کی کثرت کے سبب)۔‘‘ [صحيح مسلم، رقم الحديث: 155]۔ یہ بائبل کی بہت سی آیات میں سے چند تھیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
اسلام
ہم فقط ان عقائد کا ذکر کریں گے تو شیعہ و سنی میں مشترکہ ہیں امام مھدی (عج) کے متعلق۔ حدیث ہے: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ كُنَّا عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ فَتَذَاكَرْنَا الْمَهْدِيَّ فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَقُولُ ‏ "‏ الْمَهْدِيُّ مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ ‏"‏ ترجمہ: "‏ام سلمہ (رضی الله عنہا) کہتی ہیں: میں نے الله ﷻ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا کہ مھدی میری نسل اور آل سے ہونگے، فاطمہ کی اولاد میں سے۔" [سنن أبي داود، رقم: 4284، سنن ابن ماجه، رقم: 4086، إسناده صحيح (الأباني)]. صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ثُمَّ سَكَتَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا لاَ يَعُدُّهُ عَدَدًا ‏"‏ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ لأَبِي نَضْرَةَ وَأَبِي الْعَلاَءِ أَتَرَيَانِ أَنَّهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالاَ لاَ۔ ترجمہ: "پھر جابر بن عبد الله ﷻ انصاری رضی الله عنه تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: رسول الله ﷺ نے فرمایا: "میری امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ ہو گا جو لپیں بھر بھر کے مال تقسیم کرے گا اور اس کی گنتی نہیں کرے گا۔" (جریری نے) کہا: میں نے ابو نضرہ اور ابو العلاء سے پوچھا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ عمر بن عبد العزیز ہیں؟ تو دونوں نے کہا: نہیں (وہ امام مھدی ہونگے)۔"[صحيح مسلم، رقم: 2913]۔ اگلی حدیث متفق عليه کا درجہ رکھتی ہے (یعنی صحيح البخاري اور صحيح مسلم دونوں میں ہے)۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ‏"‏‏. ترجمہ: "الله ﷻ کے رسول ﷺ نے کہا: "تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم (ع) تم میں اتر آئیں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔"" [صحيح البخاري، رقم: 3449، صحيح مسلم، رقم: 155]۔ اس حدیث میں واضح ہے کہ مسلمانوں کا امام ان میں موجود ہوگا (امام مھدی) جب عیسی (ع) نازل ہونگے۔ ایک اور حدیث کہتی ہے، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - قَالَ - فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا ‏.‏ فَيَقُولُ لاَ ‏.‏ إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ ‏.‏ تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الأُمَّةَ ‏"‏ ترجمہ: "حضرت جابر بن عبد الله _رضی الله عنه بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’ میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر (قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ، وہ قیامت کے دن تک غالب رہیں گے، کہا: پھر عیسیٰ ابن مریم (ع) _اتریں گے تو اس گروہ کا امیر (امام مھدی) کہے گا: آئیں ہمیں نماز پڑھائیں، اس پر عیسیٰ _(ع) جواب دیں گے : نہیں ، الله ﷻ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔" [صحيح مسلم، رقم: 395] ۔ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عیسی (ع) امام مھدی (عج) کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ ایک اور حدیث کہتی ہے، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله قال يخرج في آخر أمتي المهدى يسقيه الله الغيث وتخرج الأرض نباتها ويعطى المال صحاحا (وتكثر الماشية وتعظم الأمة يعيش سبعا أو ثمانيا يعنى حججا. هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه)۔ ترجمہ: "ابو سعید خدری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ الله ﷻ کے رسول ﷺ نے کہا: "آخری زمانے میں میری امت میں مھدی آئے گا، الله ﷻ اسکو بارش عطاء کرے گا اور زمین پھل اگائے گی، چوپائے بڑھ جائیں گے اور امت عظیم ہوجائے گی، وہ سات (یا آٹھ) سال حکومت کرے گا۔" [المستدرك للحاكم، ج 4، ص 557-558، إسناده صحيح (حاكم، الذهبي، الألباني)]۔ ایک حدیث کہتی ہے، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏ "‏ الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ ‏"‏ ‏ترجمہ: "علی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے کہا کہ مھدی ہم اہل بیت میں سے ہے، الله ﷻ اسکے امر کو ایک رات میں درست کردے گا۔" [مسند أحمد، رقم: 645، سنن ابن ماجه، رقم: 4085، إسناده صحيح (الأباني، أحمد شاكر)]۔ مھدی آخر الزمان کے صفات پر ایک حدیث کہتی ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ الْمَهْدِيُّ مِنِّي أَجْلَى الْجَبْهَةِ أَقْنَى الأَنْفِ يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ ‏"‏۔ ترجمہ: "ابو سعید خدری رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” مھدی مجھ سے ( میری نسل سے ) ہو گا اس کی پیشانی فراخ اور ناک بلند ہو گی ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ ظلم و زیادتی سے بھری ہو گی اور سات سال تک حکومت کرے گا ۔" [سنن أبي داود، رقم: 4285، المستدرك للحاكم، ج 4، ص 557، صحيح على شرط الشيخين (الحاكم)]۔ آخری حدیث جو ہم بیان کر رہے ہیں وہ یہ ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ يَوْمٌ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ زَائِدَةُ فِي حَدِيثِهِ ‏"‏ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ اتَّفَقُوا ‏"‏ حَتَّى يَبْعَثَ فِيهِ رَجُلاً مِنِّي ‏"‏ ‏.‏ أَوْ ‏"‏ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي ‏"‏ ‏.‏ زَادَ فِي حَدِيثِ فِطْرٍ ‏"‏ يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا ‏"‏ ‏.‏ وَقَالَ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ ‏"‏ لاَ تَذْهَبُ أَوْ لاَ تَنْقَضِي الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ‏"‏۔ ترجمہ: "عبد الله بن مسعود رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے کہا: "دنیاء ختم نہیں ہوگی حتی کہ عربیوں پر میرے اہل بیت میں سے ایک شخص حاکم بنجائے جسکا نام میرا نام ہوگا، چاہے دنیاء میں ایک دن بھی باقی رہہ جائے الله ﷻ اس دن کو اتنا طویل کردے گا کہ وہ حکومت کر سکے۔" [سنن أبي داود، رقم: 4282، إسناده حسن صحيح (الألباني)]۔ لہذا ہم ان احادیث سے دیکھتے ہیں کہ الله ﷻ کے رسول ﷺ نے پہلے سے امام مھدی (عج) کی پیشن گوئی کردی ہے اور انکی صفات بیان کردی ہیں۔ کہ وہ اہل بیت میں سے ہونگے، فاطمہ (س) کی اولاد میں سے، وہ عربیوں اور مسلمانوں کے حاکم ہونگے اور آخری زمانے میں عیسی (ع) نازل ہونگے اور انکے پیچھے نماز پڑھیں گے، دنیاء کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی اور کہ یہ عیسی (ع) سے مختلف شخصیت ہونگے۔ ہم نے فقط وہ روایات نقل کی ہیں جو مشترک ہیں وگرنہ شیعہ منابع میں امام مھدی (عج) کے متعلق متعدد صحیح اسناد سے روایات مروی ہیں۔
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم عجل لوليك الفرج وسهل مخرجه واجعلنا من أنصاره وأعوانه بحق جده محمد ﷺ وآله الطاهرين.