AmazonAffiliate

Hack

GADGETS

Life & style

Games

Sports

ﭘﺎﻧﭻ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﺣﮑﻤﺘﯿﮟ☄

ﭘﺎﻧﭻ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﺣﮑﻤﺘﯿﮟ☄


ﺍباﺻﻠﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﻋﻠﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﺎ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﺣﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ۔
ﮐﻞ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻮ ﺗﻮ
ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﺎ ﻟﮯ ـ 
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﮮ ـ
 ﺗﯿﺴﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﮯ ـ
 ﭼﻮﺗﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ـ
 ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﻧﺎ۔

ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﮦ ﭘﮩﺎﮌ ﺁﯾﺎ ـ 
ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ ۔ﭘﮭﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮﮔﺰ ﺣﮑﻢ ﻧﮧ ﺩﯾﺘﺎ۔ 
ﭘﮭﺮ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﮮ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﮨﻮﺗﮯ ﮔﺌﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻟﻘﻤﮧ ﺟﻨﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﺍﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺎ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﺰﯾﺪﺍﺭ ﻟﻘﻤﮧ ﭘﺎﯾﺎ ۔

ﭘﮭﺮ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺸﺖ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ۔ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮍﮬﺎ ﮐﮭﻮﺩ ﮐﺮ ﻃﺸﺖ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﮍﮐﺮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻃﺸﺖ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ ۔ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔

ﺁﮔﮯ ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﺑﺎﺯ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﻧﺒﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﺳﺘﯿﻦ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﮧ ﺩﯼ ۔

 ﺑﺎﺯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﻮ ﻣﭽﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺊ ﺩﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ﭼﻮﺗﮭﮯ ﮐﻮ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﻥ ﺳﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﺎ ﭨﮑﺮﺍ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﺯ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ۔

 ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺪﺑﻮﺩﺍﺭ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮍﮮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻧﺒﯽ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﺌﮯ۔

ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﺒﯽ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧﺍﺳﮯ ﺳﮯ ﮐﮩا جا ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗم ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮨﻮ؟ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ۔
ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﻭﮦ ﺳﯿﺎ ﭘﮩﺎﮌ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﮨﮯ 
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻏﺼﮧ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺍﺱ ﻟﺬﯾﺬ ﻟﻘﻤﮧ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﺳﻮﻧﮯﮐﺎ ﺗﮭﺎﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﺗم ﻧﮯ ﭼﮭﭙﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﯿﮑﯽ ﮨﮯ
 ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﻮ ﺟﺘﻨﺎ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ‏( ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ‏)
ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ
 ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻭ ۔

ﺑﺎﺯ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻭﮦ ﺣﺎﺟﺖ ﻣﻨﺪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ
 ﺍﺳﮯ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔
ﺟﺲ ﺑﺪﺑﻮﺩﺍﺭ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻏﯿﺒﺖ ﮨﮯ
 ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﮔﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ

‏( ﮨﺪﯾۃ ﺍﻟﺸﯿﻌﮧ ‏( ﻣﻮﺍﻋﻈﮧ ﻋﺪﺩﯾﮧ ‏) ﺻﻔﺤﮧ 266 ﺗﺎ 268 ـ 
ﺭﻭﺡ ﺍﻟﺤﯿﺎﺕ ‏( ﻋﯿﻦ ﺍﻟﺤﯿﺎﺕ ‏) 616 ﺗﺎ 618 ‏)

برطانیہ میں جعلی علماء کس طرح تیار کیے جاتے ہیں

وقت نکال کر اس مضمون کو ضرور پڑھیں...
برطانیہ میں جعلی علماء کس طرح تیار کیے جاتے ہیں ؟
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسولؐ ،ایک کتاب،ایک امت ،لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی محنت شامل ہے۔ زیرِ نظر تحریر ایک ایسی ہی حقیقت ہے کہ کیوں ابھی تک ہم ایک چاند پر بھی متفق نہیں ہو پارہے ہیں؟۔یہ مضمون جولائی 2010 ءکے’اُردو ڈائجسٹ ‘میں شائع ہوا تھا۔
”نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا ۔ان کے ایک پکے انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا: ”آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرائوں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔“نواب صاحب خوش ہوگئے ۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: ”ہم کل صبح چلیں گے“ لیکن میری موٹر میں‘موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا ۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا ۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :”بس منزل آنے والی ہے۔“آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں “۔راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔“
عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے ۔دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔ پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔دوسرے نے ”وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟“نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے ،دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے ،عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباءعربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے ۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا ۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے ۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور داڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاءنمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ ۔ایک استاد نے سوال کیا،پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!”جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ،نظربد،تعویذ ،گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں ؟“پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولیTRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا: ”الاستاد ،قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔“استاد بولے: ”قرآن کی بات مت کرو،روایات اور ورد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ستاروں ،ہاتھ کی لکیروں ،مقدراور نصیب میں انہیں اُلجھاو۔“
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟“انگریز نے کہا: ”ارے بھئی ،ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں،تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوںخصوصاًمشرق وسطیٰ،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں ۔یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ مؤذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“
نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس’ عظیم مدرسے‘ کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
(۱) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
(۲) حضوراکرم ﷺ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔[بشکریہ : ماہنامہ ’الحیاۃ‘ انڈیا۰۰۰۰فروری2016 ]

نئے طرز کی الف ب

الف با تو بہت پڑها ہو گا.......
لیکن ایسے نہیں......
آیئے میں آپ کو نبی کریم صلی علیہ وسلم کی نرالی شان سناؤں
الف:نےکہا--- اللہ کا رسول آرہاہے.
ب:نے کہا --- بانئ اسلام آرہا ہے.
ت:نےکہا --- تاجدار مدینہ آرہا ہے.
ث:نےکہا--- ثروت والا آرہاہے.
ج:نےکہا---جلیل القدر آرہاہے.
ح:نےکہا....حبیب خدا آرہا ہے.
خ:نےکہا...خاتم انبیین آرہاہے.
د:نےکہا...دوجہاں کاوالی آرہاہے.
ذ:نےکہا...ذالک الکتاب کہنے والاآرہاہے.
ر:نےکہا...رحمة للعلمین آرہاہے.
ز:نےکہا...زمانے کا امام آرہاہے.
س:نےکہا...ساقئ کوثرآرہاہے.
ش:نےکہا...شافع محشر آرہاہے.
ص:نےکہا...صادق و امین آرہاہے.
ض:نےکہا...ضعیفوں کاماوی آرہاہے.
ط:نےکہا...طاہرومطہرآرہاہے.
ظ:نےکہا...ظلم مٹانے والاآرہاہے.
ع:نے کہا...عرب کا تاجدارآرہاہے.
غ:نےکہا...غریبوں کا ملجا آرہاہے
ف:نےکہا...فقیروں کامولا آرہاہے.
ک:نے کہا...کملی والا آرہاہے.
ل:نے کہا... لولاک کا مخاطب آہاہے.
م:نےکہا... محمد الرسول اللہ آرہا ہے.
ن:نےکہا...نبیوں کا سردار آرہاہے.
و:نےکہا...والضحی آرہاہے.
ہہ:نے کہا... ہادئ برحق آرہا ہے.
ی: نے کہا...یکتاانوکھی شان والا آرہاہے.