AmazonAffiliate

Hack

GADGETS

Life & style

Games

Sports

*موضوع: روح*

*کیا روح ہر جمعرات کو اپنے اہل وعيال کے گھر آتی ہے*

*جواب:*
گھر ميں روح كے آنے كا بيان صحيح السند روايات ميں وارد ہوا ہے۔ الكافى كى تيسرى جلد ميں اس موضوع پر ايك باب باندھا گيا ہے جس كا عنوان يہ ہے: *’’ميت كا اپنے اہل وعيال كى زيارت كرنا‘‘*۔
*روايت۱:*
1- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَزُورُ أَهْلَهُ فَيَرَى مَا يُحِبُّ وَ يُسْتَرُ عَنْهُ مَا يَكْرَهُ وَ إِنَّ الْكَافِرَ لَيَزُورُ أَهْلَهُ فَيَرَى مَا يَكْرَهُ وَ يُسْتَرُ عَنْهُ مَا يُحِبُّ قَالَ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَزُورُ كُلَّ جُمْعَةٍ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَزُورُ عَلَى قَدْرِ عَمَلِهِ.
*ترجمہ:* امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: بے شك مومن اپنے اہل وعيال كى زيارت كرتا ہے، پس وہ اس چيز كو ديكھتا ہے جو اسے پسند و محبوب ہے اور جسے وہ نا پسند كرتا ہے وہ اس سے پوشيدہ كر دى جاتى ہے، اور كافر بھى اپنے اہل و عيال كى زيارت كرتا ہے، وہ اس شىء كو ديكھتا ہے جسے ناپسند كرتا ہے اور جسے پسند كرتا ہے وہ اس سے پوشيدہ كر ديا جاتا ہے، ان ميں سے بعض وہ ہيں جو ہر جمعہ كو زيارت كرتے ہيں، اور ان ميں سے بعض ہیں جو اپنے عمل كى مقدار كے مطابق زيارت كرتے ہيں۔ (يعنى جو زيادہ ايمان اور عمل صالح ركھتا ہے وہ اتنى زيادہ مقدار ميں زيارت كر سكتا ہے)
📗الكافى، ج ۳، ص ۲۳۰، كتاب الجنائز، باب أن الميت يزور أھلہ، حديث۱، يہ حديث صحيح السند ہے۔ *روايت ۲:* 🔹بعد کی روايت ميں وارد ہوا ہے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
مَا مِنْ مُؤْمِنٍ وَ لَا كَافِرٍ إِلَّا وَ هُوَ يَأْتِي أَهْلَهُ عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ فَإِذَا رَأَى أَهْلَهُ يَعْمَلُونَ بِالصَّالِحَاتِ حَمِدَ اللَّهَ عَلَى ذَلِكَ وَ إِذَا رَأَى الْكَافِرُ أَهْلَهُ يَعْمَلُونَ بِالصَّالِحَاتِ كَانَتْ عَلَيْهِ حَسْرَةً.

🔻ترجمہ: كوئى ايسا مومن اور كوئى ايسا كافر نہيں ہے مگر وہ زوالِ شمس (ظہر كے وقت) اپنے اہل و عيال كے پاس آتا ہے، جب مومن اپنے اہل كو صالح عمل كرتے ہوئے ديكھتا ہے تو اس پر اللہ كى حمد بجالاتا ہے، اور جب كافر اپنے اہل و عيال كو صالح عمل كرتے ديكھتا ہے تو اس پر حسرت كرتا ہے (كہ اے كاش ميں بھى اس عمل كو انجام ديتا) 📗الكافى، ج ۳ ، س ۲۳۰، حديث ۲۔
🔹بعض روايات كے مطابق ميت ايك پرندے يا چڑيا يا اس سے چھوٹے پرندے كى صورت ميں دو فرشتوں كے ہمراہ زيارت كے ليے آتى ہے۔ نيز مومن كى روح اپنى قدر و منزلت كے مطابق زيارت كر سكتى ہے۔ ہر جمعہ كو زوالِ شمس (ظہر كے وقت ) زيارت كر سكتى ہے۔ ليكن بقيہ دنوں ميں اسے يہ قدرت و اجازت عطا نہيں ہوتى۔ ليكن جو مومن منزلت و مرتبہ ركھتا ہے اس كے مطابق سال، مہينوں اور ہفتوں كے بقيہ دنوں ميں دو يا تين يا اس سے زائد اذنِ زيارت اللہ تعالى كى طرف سے عنايت ہوتا ہے۔
🅾 نتيجہ :
۱) ميت كا گھر ميں زيارت كے ليے آنا صحيح السند روايات ميں وارد ہوا ہے اور وقتِ زيارت ’’ظہر كا وقت‘‘ ہے اور جمعہ كا دن۔ البتہ اگر مومن صاحب منزلت و مرتبہ ہے تو جمعہ كے علاوہ بقيہ دنوں ميں بھى زيارت كے ليے آتا ہے۔ ’’جمعہ كا دن‘‘ مومن اور كافر ہر كے ليے قرار ديا گيا ہے۔ كافر كے ليے يہ زيارت تكليف و غم كا باعث ہے اور مومن كے ليے خوشى۔

۲) اگر ديگر روايات كو ملاحظہ كريں تو معلوم ہو گا روح كا تصور انسانى بدن كى مانند نہيں ہے كہ اگر ايك جگہ ہے تو دوسرى جگہ نہيں۔ بلكہ روح ايك لطيف مخلوق ہے جو مجرد ہے اور ماديت اور مادى اجزاء سے بے نياز ہے۔ اس ليے روح پھيلاؤ كى صورت ميں احاطہ كرتى ہے۔ نہ كہ ايك طرف سے منتقل ہو كر دوسرى طرف بدنِ انسانى كى طرح چلى جاتى ہے۔
۳) روايات ميں روح كو سورج سے تشبيہ دى گئى ہے كہ جس طرح سورج ايك جگہ ہوتا ہے ليكن اس كى كرنيں اور روشنى ايك بڑى علاقے كو گھير ليتى ہے اور سورج اس سے تعلق ركھتا ہے۔ اسى طرح روحِ انسانى ہے۔ البتہ روحِ انسانى كا احاطہ كرنا اس كى ايمانى منزلت اور مرتبہ كے مطابق ہے۔ جيساكہ روايت ميں وارد ہوا ہے:
*روايت ۳ :*
ٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ النَّوْفَلِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقِ ع الْمُؤْمِنُ يَرَى الرُّؤْيَا فَتَكُونُ كَمَا رَآهَا وَ رُبَّمَا رَأَى الرُّؤْيَا فَلَا تَكُونُ شَيْئاً فَقَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا نَامَ خَرَجَتْ مِنْ رُوحِهِ حَرَكَةٌ مَمْدُودَةٌ صَاعِدَةٌ إِلَى السَّمَاءِ فَكُلَّمَا رَآهُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاءِ فِي مَوْضِعِ التَّقْدِيرِ وَ التَّدْبِيرِ فَهُوَ الْحَقُّ وَ كُلَّمَا رَآهُ فِي الْأَرْضِ فَهُوَ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ فَقُلْتُ لَهُ وَ تَصْعَدُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ إِلَى السَّمَاءِ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ فِي بَدَنِهِ فَقَالَ لَا لَوْ خَرَجَتْ كُلُّهَا حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ إِذاً لَمَاتَ قُلْتُ فَكَيْفَ يَخْرُجُ فَقَالَ أَ مَا تَرَى الشَّمْسَ فِي السَّمَاءِ فِي مَوْضِعِهَا وَ ضَوْؤُهَا وَ شُعَاعُهَا فِي الْأَرْضِ فَكَذَلِكَ الرُّوحُ أَصْلُهَا فِي الْبَدَنِ وَ حَرَكَتُهَا مَمْدُودَةٌ.
*ترجمہ:* محمد بن القاسم نوفلى بيان كرتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے پوچھا: مومن خواب ديكھتا ہے تو كبھى جيسا وہ ديكھتا ہے ويسا ہى ہوتا ہے اور كبھى وہ خواب ديكھتا ہے ليكن اس كے مطابق نہيں ہوتا ہے؟
امام عليہ السلام نے فرمايا:
جب مومن سوتا ہے تو اس كى روح ميں سے ايك حركت ہوتى ہے جو پھيلى ہوئى ہوتى ہے آسمان كى طرف جاتى ہے، پس جب بھى مومن كى روح تقدير اور تدبير كے مقام پر ملكوتِ آسمان كو ديكھتى ہے تو وہ ’’حقّ‘‘ ہوتا ہے، اور جب بھى مومن كى روح زمين ميں (كسى واقعہ يا زمين كو) ديكھتى ہے تو خواب ميں دكھائى دينے والے اشتباہات اور حق باطل كا اختلاط ہے۔
راوى كہتا ہے كہ ميں نے امام عليہ السلام سے پوچھا: كيا مومن كى روح آسمان كى طرف جاتى ہے؟
امام عليہ السلام نے فرمايا: بالكل
راوى كہتا ہے ميں نے كہا: اس كے بدن ميں كوئى شىء باقى نہيں رہتى؟
امام عليہ السلام نے فرمايا: نہيں ، ايسا نہيں ہے، كيونكہ اگر اس کی روح تمام كى تمام بدن سے خارج ہو جاتى اور كچھ باقى نہ بچتا تو وہ مر جاتا۔
راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: پھر كيسے روحِ مومن خارج ہوتى ہے؟
امام عليہ السلام نے فرمايا: كيا تم نے آسمان ميں سورج نہيں ديكھا كہ وہ اپنى جگہ پر ہوتا ہے ليكن اس کی كرنيں اور اس كى شعاعيں زمين پر ہوتى ہيں، بالكل اسى طرح روح بھی اصل بدن ميں ہوتى ہے اور اس كى حركت پھيلى ہوئى ہوتى ہے۔
📗أمالى الشيخ الصدوق، ص ۱۴۵، مجلس ۲۹، حديث ۱۵۔
🔻 اس حديث پر غور كريں تو ہميں روح كے بارے ميں معلوم ہو گا كہ وہ ايك بدنى چيز يا مادى چيز نہيں ہے۔ بلكہ وہ ايك پھيلاؤ كى صورت ميں حركت ركھتى ہے۔ نيز چونكہ ہمارا عقلى رشد كا دائرہ وسيع نہيں ہے اور قليل علم ركھتے ہيں اس ليے تشبيہ كا سہارا لے كر كچھ خصوصيات واضح كى جاتى ہے۔ جيساكہ روايت ميں ديكھا كہ راوى كے ليے يہ حقائق ہمارى طرح سمجھنا مشكل تھے تو اس كى ظرفيت اور علم كے مطابق ايك مثال سے روح كے چند جوانب بيان كيے۔ يہى صورتحال ہمارى ہے كہ ہم روح كے بارے ميں وسيع معلومات اس ليے حاصل نہيں كر سكتے كيونكہ ہمارى عقل و علم كا دائرہ محدود ہے۔
🔻ان روايات سے يہ بھى معلوم ہوا كہ ہميں روح كى زيارت كے عنوان سے خودساختہ اعمال انجام نہيں دينے چاہيے۔ بلكہ صرف اعمال صالحہ برپا كرنے چاہيے تاكہ اس منظر كو ديكھ كر ميت خوش ہو جائے۔ جيساكہ اوپر روايات ميں وارد ہوا ہے۔ بقيہ من گھڑت اعمال سے پرہيز كرنا چاہيے۔
🔻ميت كے آنے سے گھر ميں كسى شىء ميں كمى يا اضافہ نہيں ہوتا۔ نہ ہى ميت كسى پہلو كے اعتبار سے اثر انداز ہوتى ہے۔ البتہ ان مناظر كو ديكھ كر ميت بارگاہِ الہى ميں دعا كرے تو اللہ تعالى اپنے عبدِ مومن كى گزارش پر خير و بركت عنايت فرما سكتا ہے۔
🔻ميت كى زيارت ميں اصل نعمت اور خوشى ميت كے ليے ہے۔ يہ روايات زندوں كى نويد يا خوشخبرى سے تعلق نہيں ركھتى بلكہ مرنے كے بعد كے احوال كو بيان كرتى ہيں۔ زندوں كو نہ ميت كے آنے كا علم ہوتا ہے اور نہ ان كے گھروں پر اس كے اثرات مرتب ہوتے ہيں سوائے اس كے کہ ميت اگر مومن ہے اور اپنے اہل و عيال كى طرف توجہ كرنے كى صورت ميں ان كے ليے دعا كرے۔
🔻زندوں كے ليے ان روايات ميں يہ فرصت مہيا ہے كہ وہ اعمال صالح كو برپا كر كے اور شر و گناہ كو برطرف كر كے اپنے مرنے والوں كى خوشى كا باعث بنيں.

کسی بھائی کی پوسٹ سے کاپی کیاگیاہے ۔

«
Next
Newer Post
»
Previous
Older Post

No comments:

Leave a Reply